فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَٰؤُلَاءِ شَهِيدًا
پس کیا حال ہوگا جس وقت کہ ہر امت میں سے ایک گواہ ہم لائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے (١)۔
اس آیت میں میدان حشر کی کیفیت اور اللہ تعالیٰ کی عدالت کا ذکر ہورہا ہے۔ اس وقت ہر اُمت میں سے ایک گواہ لایا جائے گا اور ہر نبی اپنی امت کی طرف سے گواہی دے گا کہ یااللہ! ہم نے تو تیرا پیغام اپنی قوم کو پہنچا دیا تھا انھوں نے نہیں مانا تو اس میں ہمارا کیا قصور، پھر ان سب پر نبی کریم کو لایا جائے گاآپ صلی اللہ علیہ وسلم گواہی دیں گے کہ یااللہ یہ سچے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ گواہی اس قرآن کی وجہ سے دیں گے جو ان پر نازل کیا گیا اور جس میں گزشتہ انبیاء اور ان کی قوموں کی سرگزشت حسب ضرورت بیان کی گئی ہے۔ یہ ایک سخت مقام ہوگا۔ اس کا تصور ہی لرزہ پیدا کردینے والا ہے۔ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہماسے قرآن سننے کی خواہش ظاہر فرمائی وہ سناتے ہوئے جب اس آیت پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’بس کافی ہے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔ (بخاری: ۴۵۸۲) اس آیت سے آپ کی تمام انبیاء پر فضیلت ثابت ہوئی ہے کیونکہ تمام انبیاء پر شہادت دینے کا شرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوگا۔