وَمَاذَا عَلَيْهِمْ لَوْ آمَنُوا بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقَهُمُ اللَّهُ ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِهِمْ عَلِيمًا
بھلا ان کا کیا نقصان تھا اگر یہ اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لاتے اور اللہ تعالیٰ نے جو انہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے اللہ تعالیٰ انہیں خوب جاننے والا ہے۔
آخرت کے منکر خسارے میں ہیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انھیں کسی کافر نے کہا کہ جس آخرت پر تم ایمان لاتے ہو وہ محض ایک مفروضہ ہے جسے تم یقینی طور پر ثابت نہیں کرسکتے، اور اس مفروضہ پر تم اپنے آپ پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد کرتے ہو، مال خرچ کرتے ہو اور دنیا کے لذائذ سے محروم رہتے ہو یہ تو صریح نقصان کی بات ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اُسے جواب دیا کہ ہم جتنا وقت اللہ کی عبادت میں رہتے ہیں کم از کم اتنی دیر تو ہم دنیا کی بُری باتوں اور برے کاموں سے بچے رہتے ہیں۔ اور اگر مال خرچ کرتے ہیں تو اس سے بھی کسی ضرورت مند کو ضرورفائدہ پہنچتا ہے۔ پھر ہمیں ان کاموں سے خوشی حاصل ہوتی ہے۔ رہے لذائذ دنیا تو یہ چند روز کی بات ہے ۔ موت کے بعد ہم اور تم برابر ہوئے مرنے کے بعد اگر ہمارا نظریہ درست ثابت ہوا تو ہم جاودانی راحتوں اور نعمتوں کے مستحق ہونگے اور تمہیں طرح طرح کے مصائب اور دائمی جہنم کا عذاب ہوگا۔ لہٰذا اچھی طرح سوچ لو کہ خطرے میں ہم ہیں یا تم لوگ؟ یہ سن کر اُسے ہوش آگیا اور وہ ایمان لے آیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کافر اللہ اور آخرت پر ایمان لاتے اور اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے تو انکا نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہی تھا۔