يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ ۖ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے نبی! جس چیز کو اللہ نے آپ کے لئے حلال کردیا ہے اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں؟ (١) (کیا) آپ اپنی بیویوں کی رضامندی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
حلت وحرمت اللہ كے قبضہ میں ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز كو اپنے لیے حرام کر لیا تھا وہ كیا تھی؟ جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ناپسندیدگی كا اظہار فرمایا، اس سلسلے میں ایك تو وہ واقعہ مشہور ہے جو صحیح بخاری اور مسلم وغیرہ میں نقل ہوا، كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا كے پاس كچھ دیر ٹھہرتے اور وہاں شہید پیتے۔ حضرت حفصہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما دونوں نے وہاں معمول سے زیادہ دیر تك آپ صلی اللہ علیہ وسلم كو ٹھہرنے سے روكنے كے لیے یہ اسكیم تیار كی كہ ان میں سے جس كے پاس بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں تو وہ ان سے یہ كہے كہ اللہ كے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے منہ سے مغافیر (ایك قسم كا پھول، جس میں بساند ہوتی ہے) كی بو آرہی ہے۔ چنانچہ انھوں نے ایسا ہی كیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے تو زینب كے گھر سے صرف شہد پیا ہے۔ اب میں قسم كھاتا ہوں كہ نہیں پیؤں گا، لیكن یہ بات تم كسی كو مت بتلانا۔ (بخاری: ۴۹۱۱، مسلم: ۱۴۷۳) سنن نسائی میں بیان كیا گیا ہے كہ وہ ایك لونڈی تھی جس كو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اوپر حرام كر لیا تھا (شیخ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے)، (نسائی: ۳۴۴۹) جب كہ كچھ دوسرے علماء اسے ضعیف قرار دیتے ہیں، اس كی تفصیل دوسری كتابوں میں اس طرح بیان كی گئی ہے كہ یہ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا تھیں جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے صاحبزادے ابراہیم تولد ہوئے تھے۔ یہ ایك مرتبہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا كے گھر آ گئی تھیں جب كہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا موجود نہیں تھیں۔ اتفاق سے انہی كی موجودگی میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا آگئیں انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے ساتھ خلوت میں اپنے گھر دیكھنا ناگوار گزرا جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی محسوس فرمایا، جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا كو راضی كرنے كے لیے قسم كھا كر ماریہ قبطیہ كو اپنے اوپر حرام كر لیا۔ اور حفصہ رضی اللہ عنہا كو تاكید كی كہ یہ بات كسی كو نہ بتلائے۔ امام ابن حجر ایك تو یہ فرماتے ہیں كہ یہ واقعہ مختلف طریق سے نقل ہوا ہے۔ جو ایك دوسرے كو تقویت پہنچاتے ہیں۔ دوسری بات وہ یہ فرماتے ہیں كہ ممكن ہے كہ بیك وقت دونوں ہی واقعات اس آیت كے نزول كا سبب بنے ہوں۔ (فتح الباری) امام شوكانی رحمہ اللہ نے بھی اسی رائے كا اظہار كیا ہے اور دونوں قصوں كو صحیح قرار دیا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوئی كہ اللہ كی حلال كردہ چیز كو حرام كرنے كا اختیار كسی كے پاس بھی نہیں ہے حتیٰ كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ اختیار نہیں ركھتے۔