هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنفِقُوا عَلَىٰ مَنْ عِندَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّىٰ يَنفَضُّوا ۗ وَلِلَّهِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ
یہی وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ جو لوگ رسول اللہ کے پاس ہیں ان پر کچھ خرچ نہ کرو یہاں تک کہ وہ ادھر ادھر ہوجائیں اور آسمان و زمین کے خزانے اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں (١) لیکن یہ منافق بے سمجھ ہیں (٢)۔
ایك غزوہ میں (جسے اہل سیر غزوئہ مریسیع یا غزوئہ بنی المصطلق كہتے ہیں) ایك مہاجر اور ایك انصاری كا جھگڑا ہوگیا۔ دونوں نے اپنی اپنی حمایت كے لیے انصار اور مہاجرین كو پكارا جس پر عبداللہ بن ابی (منافق) نے انصار سے كہا كہ تم نے مہاجرین كی مدد كی۔ اور ان كو اپنے ساتھ ركھا اب دیكھ لو اس كا نتیجہ سامنے آرہا ہے۔ یعنی یہ اب تمہارا كھا كر تمہیں پر غرا رہے ہیں۔ ان كا علاج تو یہ ہے كہ ان پر خرچ كرنا بند كر دو۔ یہ اپنے آپ تتر بتر ہو جائیں گے۔ نیز اس نے یہ بھی كہا كہ ہم (جو عزت والے ہیں) ان ذلیلوں (مہاجرین) كو مدینے سے نكال دیں گے۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے یہ كلمات خبیثہ سن لیے اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كو آكر بتلایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی كو بلا كر پوچھا تو اس نے صاف انكار كر دیا۔ جس پر حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ كو سخت ملال ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ كی صداقت كے اظہار كے لیے سورئہ منافقون نازل فرما دی۔ جس میں ابن ابی كا كردار پوری طرح طشت ازبام كر دیا گیا۔ (بخاری: ۴۹۰۰) آسمان وزمین كے خزانے: یعنی مہاجرین كا رازق اللہ تعالیٰ ہے، اس لیے كہ رزق كے خزانے اسی كے پاس ہیں، وہ جس كو جتنا چاہے دے اور جس سے چاہے روك لے۔ منافق اس حقیقت كو نہیں جانتے، اس لیے وہ سمجھتے ہیں كہ انصار اگر مہاجرین كی طرف دست تعاون دراز نہ كریں تو وہ بھوكوں مرجائیں گے۔