هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں (١) میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے۔ یقیناً یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔
امیون سے مراد عرب ہیں جیسا كہ سورئہ آل عمران (۲۰) میں فرمایا کہ: ﴿قُلْ لِّلَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَ الْاُمِّيّٖنَ ءَاَسْلَمْتُمْ﴾ ’’تو اہل كتاب اور ان پڑھ لوگوں سے كہہ دے كہ كیا تم نے اسلام قبول كیا؟ پس اگر یہ بھی مسلمان ہو جائیں تو راہ راست پر ہیں۔ اور اگر یہ منہ پھیر لیں تو آپ پر صرف پہنچا دینا ہے اور بندوں كی پوری دیكھ بھال كرنے والا اللہ ہے۔‘‘ یہاں عرب كا ذكر كرنا اس لیے نہیں كہ غیر عرب كی نفی ہو بلكہ صرف اس لیے كہ ان پر انعام واكرام بہ نسبت دوسروں كے بہت زیادہ ہے۔ جیسے سورہ اعراف: (۱۵۸) میں فرمایا: ’’لوگو! میں تم سب كی طرف اللہ كا رسول ہوں۔‘‘ سورئہ الانعام: (۱۹) میں فرمایا کہ: ﴿لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَ مَنۢ بَلَغَ﴾ ’’اس كے ساتھ ہی تمہیں خبردار كر دوں كہ ہر اس شخص كو جسے یہ پہنچے۔‘‘ اسی طرح اور بھی بہت سی آیتیں ہیں جن سے صاف ثابت ہے كہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم كی بعثت روئے زمین کے سب انسانوں كی طرف تھی۔ كل مخلوق كے آپ پیغمبر تھے ہر سرخ وسیاہ كی طرف آپ نبی بنا كر بھیجے گئے تھے۔ میں دعائے ابراہیمی بن كر آیا: یہاں یہ فرمانا کہ اَن پڑھو یعنی عربوں میں اپنا رسول بھیجنا اس لیے ہے کہ حضرت خلیل اللہ کی دعا کی قبولیت معلوم ہو جائے، آپ نے اہل مکہ کے لیے دعا کی تھی کہ اللہ تعالیٰ ان میں ایک رسول ان ہی میں سے بھیجے جو انہیں اللہ کی آیتیں پڑھ کر سنائے انہیں پاکیزی سکھائے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دے۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ دعا قبول فرمائی اور جب کے مخلوق کو نبی اللہ کی سخت حاجت تھی۔ دور جاہلیت میں عرب معاشرے کی حالت: قوم یہود، مشركین عرب اور پورا عرب معاشرہ بھی۔ یعنی پورا معاشرہ شرك، اخلاقی انحطاط اور قبائلی لڑائیوں میں مبتلا ہو چكا تھا۔ لوٹ مار، قتل وغارت، فحاشی، زنا كاری اور شراب نوشی یہ سب باتیں ان كی گھٹی میں پڑی ہوئی تھیں۔ انہی بیماریوں كی وجہ سے اہل عرب كی زندگی انتہائی تلخ صورت اختیار كر چكی تھی۔