يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰ أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ ۙ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے پیغمبر! جب مسلمان عورتیں آپ سے ان باتوں پر بیعت کرنے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی، چوری نہ کریں گی، زنا کاری نہ کریں گی، اپنی اولاد کو نہ مار ڈالیں گی اور کوئی ایسا بہتان نہ باندھیں گی جو خود اپنے ہاتھوں پیروں کے سامنے گھڑ لیں اور کسی نیک کام میں تیری بے حکمی نہ کریں گی تو آپ ان سے بیعت کرلیا کریں (١) اور ان کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کریں بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور معاف کرنے والا ہے۔
عورتوں سے بیعت كا طریقہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مردوں سے بیعت لیتے تو بیعت كرنے والا ہاتھ میں ہاتھ دے كر عہد كرتا تھا لیكن عورتوں كے لیے یہ طریقہ نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے كبھی كسی عورت كے ہاتھ كو نہیں چھوا، كبھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں سے عہد لے كر كہہ دیتے كہ تمہاری بیعت ہوگئی اور كبھی ایك چادر كا ایك سرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پكڑتے اور دوسرا بیعت كرنے والی عورت پكڑ كر عہد كرتی اور كبھی آپ پانی كے كسی پیالہ وغیرہ میں ہاتھ ڈالتے۔ پھر بیعت كرنے والی عورت دوسرے سرے سے اپنا ہاتھ اس برتن میں ڈال دیتی۔ بیعت سے متعلق چند احادیث: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، اللہ كی قسم بیعت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے ہاتھ نے كبھی كسی عورت كے ہاتھ كو نہیں چھوا، بیعت كرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف یہ فرماتے كہ میں نے ان باتوں پر تجھ سے بیعت لے لی۔ (بخاری: ۴۸۹۱) بیعت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ عہد بھی عورتوں سے لیتے تھے كہ وہ نوحہ نہیں كریں گی، گریبان چاك نہیں كریں گی، سر كے بال نہیں نوچیں گی اور جاہلیت كی طرح بین نہیں كریں گے۔ (بخاری: ۴۸۹۲، مسلم: ۹۳۷) اس بیعت میں نماز، روزہ، حج اور زكوٰة وغیرہ كا ذكر نہیں ہے اس لیے كہ یہ اركان دین اور شعائر اسلام ہونے كے اعتبار سے محتاج وضاحت نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور خاص ان چیزوں كی بیعت لی جن كا عام ارتكاب عورتوں سے ہوتا تھا تاكہ وہ اركان دین كی پابندی كے ساتھ ان چیزوں سے بھی اجتناب كریں۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی كہ علماء وواعظین حضرات اپنا زور خطابت اركان دین كے بیان كرنے میں ہی صرف نہ كریں، جو پہلے ہی واضح ہیں، بلكہ ان خرابیوں اور رسموں كی بھی پر زور انداز میں تردید كیا كریں۔ جو معاشرے میں عام ہیں نماز روزے كے پابند بھی ان سے اجتناب نہیں كرتے۔