لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ
جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی (١) اور تمہیں جلا وطن نہیں کیا (٢) ان کے ساتھ سلوک و احسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا (٣) بلکہ اللہ تعالیٰ تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (٤)
یہ ان كافروں كے بارے میں ہدایات دی جا رہی ہیں جو مسلمانوں سے محض دین اسلام كی وجہ سے بغض و عداوت نہیں ركھتے اور اس بنیاد پر مسلمانوں سے نہیں لڑتے۔ یہ پہلی شرط ہے۔ یعنی تمہارے ساتھ ایسا رویہ بھی اختیار نہیں كیا كہ تم ہجرت پر مجبور ہو جاؤ یہ دوسری شرط ہے۔ ایك تیسری شرط یہ ہے جو اگلی آیات سے واضح ہوتی ہے كہ وہ مسلمانوں كے خلاف دوسرے كافروں كو كسی قسم كی مدد بھی نہ پہنچائیں، نہ مشورے اور رائے سے اور نہ ہتھیاروں وغیرہ سے۔ یعنی ایسے كافروں سے احسان اور انصاف كا معاملہ كرنا ممنوع نہیں ہے۔ جیسے حضرت اسماء بنت ابی بكر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس تشریف لائیں اور اپنی ماں كے بارے میں صلہ رحمی یعنی حسن سلوك كا پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں جاؤ ان سے صلہ رحمی كرو۔ (بخاری: ۵۹۷۸، مسلم: ۱۰۰۳) انصاف كرنے والوں سے اللہ محبت كرتا ہے: اللہ تعالیٰ انصاف كرنے كی ترغیب دیتا ہے حتیٰ كے كافروں كے ساتھ بھی۔ انصاف كرنے والوں كی فضیلت حدیث میں یوں بیان ہوئی ہے۔ انصاف كرنے والے نور كے منبروں پر ہوں گے جو رحمن كے دائیں جانب ہوں گے اور رحمن كے دونوں ہاتھ بائیں ہیں جو اپنے فیصلوں میں، اپنے اہل میں اور اپنی رعایا میں انصاف كا اہتمام كرتے ہیں۔ (مسلم: ۱۸۲۷)