سورة الحديد - آیت 27

ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَىٰ آثَارِهِم بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا ۖ فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ ۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

ان کے بعد پھر بھی ہم اپنے رسولوں کو پے درپے بھیجتے رہے اور ان کے بعد عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو بھیجا اور انہیں انجیل عطا فرمائی اور ان کے ماننے والوں کے دلوں میں شفقت اور رحم پیدا کردیا (١) ہاں رہبانیت (ترک دنیا) تو ان لوگوں نے از خود ایجاد کرلی تھی (٢) ہم نے ان پر اسے واجب نہ (٣) کیا تھا سو اللہ کی رضا جوئی کے۔ (٤) سوا انہوں نے اس کی پوری رعایت نہ کی (٥) پھر بھی ہم نے ان میں سے جو ایمان لائے انہیں اس کا اجر دیا تھا (٦) اور ان میں زیادہ تر نافرمان لوگ ہیں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

رافۃٌ کے معنی نرمی اور رحمت کے معنی شفقت کے ہیں۔ یعنی کسی کو تکلیف میں دیکھ کر دل پسیج جانا، دل بھر جانا، رقیق القلب ہونا، رقت طاری ہو جانا، اور رحمت کے معنی اس تکلیف کو دور کرنے میں مدد کرنا، سیدنا عیسیٰ علیہ السلام چونکہ خود رقیق القلب اور نرم دل تھے اس لیے ساری عمر نرم برتاؤ کیا اور ایک دوسرے سے پیار ومحبت سے رہنے کا سبق دیتے رہے لہٰذا آپ کی امت یعنی نصاریٰ میں بھی وہ صفات سرایت کر گئی تھیں۔ رہبانیت کا مفہوم: رہب ایسے خوف کو کہتے ہیں جس میں اضطراب اور احتیاط بھی شامل ہو، اور یہ خوف وقتی اور عارضی نہ ہو بلکہ طویل اور مسلسل ہو اور رہبانیت بمعنی مسلک خوف زدگی، یعنی کسی طویل اور مسلسل بے چین رکھنے والے خوف کی وجہ سے لذات دنیا کو چھوڑ کر گوشہ نشینی اختیار کر لینا، آبادی سے باہر کسی جنگل وغیرہ میں کٹیا یا جھونپڑی ڈال کر عبادت الٰہی میں یاگیان اور دھیان میں مصروف ہو جانا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نصاریٰ نے کس خوف سے ڈر کر یہ مسلک اختیار کیا تھا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد ایسے بادشاہ ہوئے جنھوں نے تورات اور انجیل میں تبدیلی کر دی، جسے ایک جماعت نے قبول نہیں کیا۔ انھوں نے بادشاہوں کے ڈر سے پہاڑوں اور غاروں میں پناہ حاصل کر لی، یہ اس کا آغاز تھا جس کی بنیاد اضطرار پر تھی، لیکن ان کے بعد آنے والے بہت سے لوگوں نے اپنے بزرگوں کو اندھی تقلید میں اس شہر بدری کو عبادت کا ایک طریقہ بنا لیا اور خود کو گرجوں اور عبادت خانوں میں بند کر لیا اور اس کے لیے علائقِ دنیا سے انقطاع کو ضروری قرار دے لیا، اسی کو اللہ نے ابتداع (خود گھڑنے) سے تعبیر فرمایا ہے۔ رہبانیت ایک بدعت ہے: یہ رہبانیت ان کی اپنی ایجاد تھی، اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسا مسلک اختیار کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی: یعنی ہم نے تو ان پر صرف اپنی رضا جوئی فرض کی تھی، دوسرا ترجمہ اس کا یہ ہے کہ انھوں نے یہ کام اللہ کی رضا تلاش کرنے کے لیے کیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرما دی کہ اللہ کی رضا دین میں اپنی طرف بدعات ایجاد کرنے سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ چاہے وہ کتنی ہی خوشنما ہوں۔ اللہ کی رضا تو اس کی اطاعت سے ہی حاصل ہوگی۔ یعنی گو انھوں نے مقصد اللہ کی رضا جوئی بتلایا۔ مگر اسے نباہ نہ سکے ورنہ وہ ابتداع (بدعات ایجاد کرنے) کے بجائے اتباع کا راستہ اختیار کرتے۔ یعنی یہ وہ لوگ تھے جو دین عیسیٰ پر قائم رہے تھے ان کو ان کے نیک اعمال کا اجر مل جائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی کے لیے رہبانیت تھی اور میری امت کی رہبانیت اللہ عزوجل کی راہ میں جہاد کرنا ہے۔ (مسند احمد: ۳/ ۲۶۶)