سورة الحديد - آیت 16

أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ ۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کیا اب تک ایمان والوں کے لئے وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکر الٰہی سے اور جو حق اتر چکا ہے اس سے نرم ہوجائیں (١) اور ان کی طرح نہ ہوجائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی (٢) پھر جب زمانہ دراز گزر گیا تو ان کے دل سخت ہوگئے (٣) اور ان میں بہت سے فاسق ہیں۔ (٤)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

ایمان والوں سے سوال: پروردگار دو عالم فرماتا ہے کیا مومنوں کے لیے اب تک وہ وقت نہیں آیا کہ ذکر خدا، وعظ ونصیحت، آیات قرآنی اور احادیث نبوی سن کر ان کے دل موم ہو جائیں، سنیں اور مانیں، احکام بجا لائیں اور ممنوعات سے پرہیز کریں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں قرآن نازل ہوتے ہی تیرہ سال کا عرصہ گزرا تھا جو مسلمانوں کے دلوں کو اس طرف نہ جھکنے کی دیر کی شکایت کی گئی۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں چار ہی سال گزرے تھے جو ہمیں یہ عتاب ہوا۔ (مسلم: ۳۰۲۸) اصحاب رسول پُر ملال ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے ہیں حضرت کچھ بات تو بیان فرمائیے، پس یہ آیت اتری۔ ﴿نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ﴾ (یوسف:۳) ’’ہم آپ کے سامنے بہترین بیان پیش کرتے ہیں اس وجہ سے کہ ہم نے یہ قرآن آپ کی جانب وحی کے ذریعے نازل کیا ہے اور یقیناً آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے پہلے بے خبروں میں سے تھے۔‘‘ ایک مرتبہ کچھ دنوں بعد یہی عرض کرتے ہیں تو سورئہ الزمر (۲۳) اتری: ﴿اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ﴾ ’’اللہ تعالیٰ نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے جو ایسی کتاب ہے کہ آپس میں ملتی جلتی اور بار بار دہرائی ہوئی آیتوں کی ہے جس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اللہ کا خوف رکھتے ہیں آخر میں ان کے جسم اور دل اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف نرم ہو جاتے ہیں۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے پہلی خیر جو میری امت سے اٹھ جائے گی وہ خشوع ہوگا پھر فرمایا تم یہود ونصاریٰ کی طرح نہ ہو جانا جنھوں نے کتاب اللہ کو بدل دیا تھوڑے تھوڑے مول پر اسے فروخت کر دیا۔ یہ خطاب اہل ایمان کو ہے اور مطلب ان کو اللہ کی یاد کی طرف مزید متوجہ کرنا اور قرآن کریم سے کسب وہدایت حاصل کرنا ہے۔ خشوع: کے معنی ہیں دلوں کا نرم ہو کر اللہ کی طرف جھک جانا۔ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا: یعنی یہود ونصاریٰ کی طرح جنھوں نے اللہ کی کتاب میں تحریف اور تبدیلی کر دی اس کے عوض دنیا کے ثمن قلیل حاصل کرنے کو انھوں سے شعار بنا لیا۔ اس کے احکام کو پس پشت ڈال دیا۔ اللہ کے دین میں لوگوں کی تقلید اختیار کر لی۔ اور ان کو اپنا رب بنا لیا۔ مسلمانوں کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ تم یہ کام مت کرو، ورنہ تمہارے دل بھی سخت ہو جائیں گے اور پھر یہی کام جو ان پر لعنت الٰہی کا سبب بنے تمہیں اچھے لگنے لگیں۔ ان کی بداعمالیوں کی سزا میں اللہ نے ان کے دل سخت کر دئیے خدا کی باتیں جتنی چاہے سنا لو پر ان کے دل نرم نہیں ہوتے، کوئی وعظ کوئی نصیحت ان پر اثر نہیں کرتی۔ کوئی وعدہ وعید ان کے دل خدا کی طرف موڑ نہیں سکتا۔ بلکہ ان میں سے اکثر وبیشتر فاسق اور کھلے بدکار بن گئے۔