سورة النسآء - آیت 5

وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِيَامًا وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

بے عقل لوگوں کو اپنا مال نہ دے دو جس مال کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری گزران کے قائم رکھنے کا ذریعہ بنایا ہے ہاں انہیں اس مال سے کھلاؤ پلاؤ، پہناؤ، اوڑھاؤ اور انہیں معقولیت سے نرم بات کہو۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

مال کے بارے میں بتایا گیا ہے اسے ضروریات میں استعمال کرو، اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرو۔ مال خواہ یتیم کا ہو یا اپنا، اگر نادان کے ہتھے چڑھ گیا تو وہ اسے ناجائز کاموں میں یا عیش و عشرت میں ضائع کردے گا۔ مال ضائع کرنے کے لیے نہیں بلکہ ضروریات زندگی کے لیے دیا گیا ہے۔ اگر مال کا انتظام احسن طریقے سے کیا جائے۔ یعنی تجارت وغیرہ میں اسے خرچ کیا جائے تو اس سے پورا معاشرہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نادان بچوں کو مال دینے سے منع فرمایا ہے تاکہ وہ بگڑ نہ جائیں۔ صحیح تربیت اور شعور آنے تک اپنی زندگی کا سرمایہ اُسے نہیں دیا جا سکتا۔