سورة آل عمران - آیت 198

لَٰكِنِ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا نُزُلًا مِّنْ عِندِ اللَّهِ ۗ وَمَا عِندَ اللَّهِ خَيْرٌ لِّلْأَبْرَارِ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

لیکن جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے رہے ان کے لئے جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ مہمانی ہے اللہ کی طرف سے اور نیکو کاروں کے لئے جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ بہت ہی بہتر ہے (١

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

ان دو آیات میں کافر اور مسلمان کی دنیاوی اور اخروی زندگی کا مقابلہ پیش کیا گیا ہے۔ یعنی ایک کافر کی چند روزہ زندگی عیش و آرام سے گزرتی ہے۔ حالانکہ عملاً ایسا نہیں ہوتا اسے بھی دنیا میں کئی طرح کے غم اور تکلیفیں برداشت کرنا پڑتی ہیں، لیکن آخرت میں وہ ہمیشہ ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہے گا۔ اور مسلمان کی چند روزہ زندگی مشکلات و مصائب ۔ دکھ اور تنگدستی میں گزرتی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہوتا اسے بھی دنیا میں خوشی اور خوشحالی کے لمحات میسر آتے رہتے ہیں۔ لیکن آخرت میں اس کے لیے ہر طرح کی نعمتیں ہی نعمتیں اور عیش و عشرت کی زندگی ہوگی تو بتائیے ان دونوں میں سے کون فائدہ میں رہا۔ اللہ کے ہاں مہمانی سے مراد یہ ہے کہ اہل جنت کو اپنے کھانے پینے کے لیے خود کچھ مشقت و تردد کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ بلکہ انھیں عزت و احترام سے ہر چیز بیٹھے بٹھائے مل جائے گی۔ دنیا میں جس نے اسلام کی راہ میں جس قدر دکھ اور مصائب برداشت کیے ہوں گے اتنا ہی انھیں آخرت میں بہتر سے بہترانعامات سے نوازا جائے گا۔