مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىٰ
کہ تمہارے ساتھی نے نہ راہ گم کی ہے اور نہ ٹیڑھی راہ پر ہے (١)
روئے سخن کفار مکہ کی طرف ہے اور رفیق سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ جن کی سیرت و کردار سے کفار بچپن سے واقف تھے۔ یعنی نبوت سے پہلے چالیس سال اس نے تمہارے ساتھ اور تمہارے درمیان گزارے ہیں۔ اس کے شب و روز کے تمام معمولات تمہارے سامنے ہیں۔ اس کا اخلاق کردار تمہارا جانا پہچانا ہے۔ راست بازی اور ایمانداری کے سوا تم نے اس کے کردار میں کبھی کچھ اور بھی دیکھا؟ اب چالیس سال بعد جو وہ نبوت کا دعویٰ کر رہا ہے۔ تو ذرا سوچو وہ کس طرح جھوٹ ہو سکتا ہے؟ چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ نہ وہ گمراہ ہوا ہے نہ بہکا ہے۔ اللہ تعالیٰ جس بات پر قسم کھا رہا ہے۔ وہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیکی اور رشد و ہدایت اور تابع حق ہیں۔ آپ کا علم کامل، آپ کا عمل مطابق علم۔ آپ کا راستہ سیدھا، آپ عظیم الشان شریعت کے شارع اور حق پر قائم ہیں۔