وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ
میں نے جنات اور انسانوں کو محض اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں۔ (١)
یعنی ساری کائنات میں جن اور انسان ہی تکالیف شرعیہ کی مکلف مخلوق ہے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے دوسروں کی نہیں بلکہ اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے۔ اس لیے کہ میں ہی ان کا خالق ہوں۔ اس آیت میں انسانوں اور جنوں کو اس مقصد کی یاد دہانی کرائی گئی ہے۔ جسے اگر انھوں نے فراموش کر رکھا تو آخرت میں سخت باز پرس ہو گی۔ اور وہ اس امتحان میں ناکام قرار پائیں گے۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے ان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دے کر ڈالا ہے۔ اگر اس کا تعلق ارادہ تکوینی سے ہوتا تو پھر تو کوئی جن و انس اللہ کی عبادت و اطاعت سے انحراف کی طاقت ہی نہ رکھتا اللہ کسی کا محتاج نہیں بلکہ کل مخلوق ہر حال اور ہر وقت میں اس کی پوری محتاج ہے۔ اور میری عبادت و اطاعت سے میرا مقصود یہ نہیں ہے کہ یہ مجھے کما کر کھلائیں جیسا کہ دوسرے آقاؤں کو مقصود ہوتا ہے، بلکہ رزق کے سارے خزانے تو خود میرے ہی پاس ہیں۔ میری عبادت و اطاعت سے تو خود ان کو فائدہ ہو گا کہ ان کی آخرت سنور جائے گی۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ پڑھایا: (اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِيْنُ)(ترمذی: ۲۹۴۰، ابو داؤد: ۳۹۹۳) ایک اور حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ اذیت کی بات سن کر اللہ تعالیٰ سے زیادہ صبر کرنے والا کوئی نہیں۔ لوگ اس کے لیے بیٹے بناتے ہیں اور وہ پھر بھی ان کو عافیت سے رکھتا ہے اور رزق دیتا ہے۔ (بخاری: ۷۳۷۸)