مَّا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَىٰ مَا أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّىٰ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ ۗ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۚ وَإِن تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ
جس حال میں تم ہو اسی پر اللہ ایمان والوں کو نہ چھوڑے گا جب تک کہ پاک اور ناپاک الگ الگ نہ کردے (١) اور نہ اللہ تعالیٰ ایسا ہے کہ تمہیں غیب سے آگاہ کر دے (٢) بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جس کا چاہے انتخاب کرلیتا ہے (٣) اس لئے تم اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھو اگر تم ایمان لاؤ اور تقویٰ کرو تو تمہارے لئے بڑا بھاری اجر ہے۔
پاک اور ناپاک الگ الگ ہوجائیں: اس کے لیے اللہ تعالیٰ ابتلا کی بھٹی سے ضرور گزارتا ہے تاکہ اس کے دوست یعنی مومن اور صابر یہ منافقوں سے الگ ہوجائیں اور دشمن یعنی منافق ذلیل و رسوا ہوجائیں۔ جس طرح اُحد میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو آزمایا جس سے ان کے ایمان، صبرو ثبات، اور جذبہ اطاعت کا اظہار ہوا اور منافقین نے اپنے اوپر جو نفاق کا پردہ ڈال رکھا تھا وہ بے نقاب ہوگیا۔ علم غیب: اگر اللہ تعالیٰ اس طرح ابتلا میں ڈال کر لوگوں کے حالات اور ظاہر و باطن کو نمایاں نہ کریں تو تمہارے پاس کوئی غیب کا علم تو ہے نہیں جس سے تم پر یہ چیزیں ظاہر ہوں اور تم جان سکو کہ کون منافق ہے اور کون مومن خالص ہے۔ غیب کا علم ہم صرف اپنے رسولوں کو ہی عطا کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ ان کی منصبی ضرورت ہے، اس وحی الٰہی اور امور غیبیہ کے ذریعے سے ہی وہ لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے اور اپنے کو اللہ کا رسول ثابت کرتے ہیں۔ سو تم اللہ پر ایمان لاکر اللہ کو راضی کرنے والے کام کرو۔ مالی قربانی کرو، اللہ کی ذات، رسول اللہ اور آخر ت پر ایمان لانے سے بڑا اجر ملے گا۔