يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ
اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اوپر نہ کرو اور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال اکارت جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (١)
اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس ادب و تعظیم اور احترام و تکریم کا بیان ہے۔ جو ہر مسلمان سے مطلوب ہے۔ پہلا ادب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں جب تم آپس میں گفتگو کرو تو تمہاری آواز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے بلند نہ ہو، دوسرا ادب، جب خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کلام کرو تو نہایت وقار اور سکون سے کرو، اس طرح اونچی آواز میں نہ کرو جس طرح تم آپس میں بے تکلفی سے ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہو۔ بعض نے یہ کہا کہ محمد یا احمد نہ کہو بلکہ ادب سے یا رسول اللہ! کہہ کر خطاب کرو۔ اگر ادب و احترام کے ان تقاضوں کو ملحوظ نہ رکھو گے تو بے ادبی کا احتمال ہے۔ جس سے بے شعوری میں تمہارے عمل برباد ہو سکتے ہیں۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کئی دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں نظر نہ آئے اس پرایک شخص نے کہا۔ یا رسول اللہ! میں اس کی بابت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلاؤں گا۔ چنانچہ وہ حضرت ثابت رضی اللہ عنہ کے مکان پر آئے، دیکھا کہ وہ سر جھکائے ہوئے بیٹھے ہیں پوچھا کیا حال ہے۔ جواب ملا بُرا حال ہے میں تو حضرت کی آواز پر اپنی آواز کو بلند کرتا تھا میرے اعمال برباد ہو گئے اور میں جہنمی بن گیا۔ یہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور سار واقعہ آپ سے کہہ سنایا۔ پھر تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے ایک زبردست بشارت لے کر دوبارہ حضرت ثابت کے ہاں گئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم جاؤ اور ان سے کہو کہ تو جہنمی نہیں بلکہ جنتی ہے۔ (بخاری: ۴۸۴۵)