لَّقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا
یقیناً اللہ تعالیٰ مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وہ درخت تلے تجھ سے بیعت کر رہے تھے (١) ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کرلیا (٢) اور ان پر اطمینان نازل فرمایا (٣) اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی۔ (٤)
بیعت رضوان اور چودہ سو صحابہ رضی اللہ عنہم : یہ ان اصحاب بیعت کے لیے رضائے الٰہی اور ان کے پکے سچے مسلمان ہونے کا پروانہ ہے۔ جنہوں نے حدیبیہ میں ایک درخت کے نیچے یہ بیعت کی تھی وہ قریش مکہ سے لڑیں گے اور راہ فرار اختیار نہیں کریں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو اس بات پر جما دیا کہ نتائج خواہ کیسے برآمد ہوں ہمیں ضرور جنگ لڑنا چاہیے۔ بظاہر نتیجہ صاف نظر آ رہا تھا، ایک طرف نہتے چودہ سو پر دیسی مسلمان تھے دوسری طرف ان کا طاقتور جانی دشمن تھا۔ جو سازو سامان کے لحاظ سے، تعداد کے لحاظ سے، رسد کے لحاظ سے، غرض کے ہر لحاظ سے ان سے بڑھ کر تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ اپنے گھر پر تھا۔ اور اس کے حریف مسلمان اس کے گھر آ گئے ہوئے تھے اس صورت میں مسلمانوں کا جنگ پر جما دینا اور انھیں اطمینان مہیا کر دینا یہ واقعی اللہ کی بہت بڑی نعمت تھی۔ جلد فتح دے دی: اس سے مراد وہی ہے جو یہودیوں کا گڑھ تھا اور حدیبیہ سے واپسی پر مسلمانوں نے واپسی پر اسے فتح کیا۔ جو صلح نامہ حدیبیہ کے صرف تین ماہ بعد وقوع پذیر ہوئی تھی یعنی غزوہ خیبر۔