وَاذْكُرْ أَخَا عَادٍ إِذْ أَنذَرَ قَوْمَهُ بِالْأَحْقَافِ وَقَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ
اور عاد کے بھائی کو یاد کرو، جبکہ اس نے اپنی قوم کو احقاف میں ڈرایا (١) اور یقیناً اس سے پہلے بھی ڈرانے والے گزر چکے ہیں اور اس کے بعد بھی یہ کہ تم سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کی عبادت نہ کرو بیشک میں تم پر بڑے دن کے عذاب سے خوف کھاتا ہوں (٢)۔
یہاں قوم عاد کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ یہ لوگ قریش سرداروں سے بھی زیادہ متکبر، مغرور اور سرکش تھے۔ احقاف قوم عاد کا مسکن: حقف کی جمع احقاف ہے۔ اس کا معنی ہے ریت کے بڑے بڑے میلوں پھیلے ہوئے ٹیلے۔ یہی علاقہ قوم عاد کا مسکن تھا۔ قوم عاد نے اسی جگہ زمین دوز مکان بنا رکھے تھے۔ اس علاقہ میں ہود علیہ السلام سے پہلے بھی کئی نبی آئے تھے۔ اور بعد میں آتے رہے۔ ان سب کی تعلیم یہی تھی کہ اللہ ہی کائنات کا اور تمہارا خالق و مالک ہے۔ لہٰذا وہی ہستی عبادت کے لائق ہے صرف اسی کی عبادت کرو۔ ہود علیہ السلام نے بھی انھیں یہی سمجھایا تھا کہ اس کائنات میں اللہ کے سوا کسی اور کا تصرف و اختیار نہیں حتی کہ خود مجھے بھی نہیں۔ میں بھی محض اللہ کا پیغام پہنچانے والا اور تمہیں تمہارے برے انجام سے ڈرانے والا ہوں۔ لیکن انھوں نے جواب میں کہہ دیا کہ جس عذاب کی دھمکی دیتے ہو لے آؤ۔