سورة الأحقاف - آیت 8

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ فَلَا تَمْلِكُونَ لِي مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَا تُفِيضُونَ فِيهِ ۖ كَفَىٰ بِهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۖ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کیا وہ کہتے ہیں کہ اسے تو اس نے خود گھڑ لیا (١) ہے آپ کہہ دیجئے! کہ اگر میں ہی اسے بنا لایا ہوں تو میرے لئے اللہ کی طرف سے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے (٢) تم اس قرآن کے بارے میں جو کچھ سن رہے ہو اسے اللہ خوب جانتا ہے (٣) میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے لئے وہی کافی ہے (٤) اور وہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (٥)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

خود ساختہ کلام: یعنی اگر تمہاری یہ بات صحیح ہے کہ میں اللہ کا بنایا ہوا رسول نہیں ہوں اور یہ کلام بھی میرا اپنا گھڑا ہوا ہے۔ پھر تو یقیناً میں بڑا مجرم ہوں اللہ تعالیٰ اتنے بڑے جھوٹ پر مجھے پکڑے بغیر تو نہیں چھوڑے گا اور اگر ایسی کوئی گرفت ہوئی تو سمجھ لینا کہ میں جھوٹا ہوں اور میری کوئی مدد بھی مت کرنا بلکہ ایسی حالت میں مجھے مواخذہ الٰہی سے بچانے کا تمہیں کوئی اختیار ہی نہیں ہو گا۔ اسی مضمون کو قرآن میں یوں فرمایا: ’’اگر یہ ہم پر کوئی بات بنا لیتا تو ہم البتہ اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے، پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے، پھر تم میں سے کوئی بھی مجھے اس سے روکنے والا نہ ہوتا۔ اور تم اس قرآن کی جس جس انداز میں بھی تکذیب کرتے ہو کبھی اسے جادو، کبھی کہانت، اور کبھی گھڑا ہوا کہتے ہو۔ اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ وہی تمہاری ان مذموم حرکتوں کا بدلہ تمہیں دے گا وہ اس بات کی گواہی کے لیے کافی ہے کہ یہ قران اسی کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ وہی میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا۔ غرض رب تعالیٰ نے تنبیہ کے بعد رغبت دلائی ہے کہ جو توبہ کرلے، ایمان لے آئے اور قرآن کو اللہ تعالیٰ کا سچا قرآن مان لے تو وہ بھی تمہیں بخش دے گا اور تم پر رحم کرے گا۔