وَلَئِن مُّتُّمْ أَوْ قُتِلْتُمْ لَإِلَى اللَّهِ تُحْشَرُونَ
بالیقین خواہ تم مر جاؤ یا مار ڈالے جاؤ جمع تو اللہ تعالیٰ کی طرف ہی کئے جاؤ گے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کے ایک احسان کا ذکر فرمارہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر جو نرمی اور ملائمت ہے یہ اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی کا نتیجہ ہے۔ اور یہ نرمی دعوت و تبلیغ کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے برعکس تندخو اور سخت دل ہوتے تو لوگ آپ سے قریب ہونے کی بجائے آپ سے دور بھاگتے ۔ جنگ اُحد میں اللہ تعالیٰ نے نافرمانی اور راہ فرار اختیار کرنے والوں کو معاف کردیا تھا۔ اب اپنے پیغمبر کو ہدایت فرمارہے ہیں۔ کہ آپ بھی ان سے درگزر کیجیے اور ان کے لیے مجھ سے بخششیں طلب کیجیے اور جیسے غزوہ اُحد سے پیشتر ان سے مشور ہ کرتے اور مجلس مشاورت میں انہیں شریک کیا کرتے تھے اسی طرح آئندہ بھی کیجئے۔ اپنے دل میں کسی قسم کا رنج نہ رہنے دیجئے۔ مشاورت: اس کا مقصد یہ ہے کہ معاملے کے سارے پہلو کھل کر سامنے آجائیں ۔ اور ہر ایک کو اپنی کھلی رائے دینے کا موقع مل سکے مشورہ صرف ان امور میں کیا جاسکتا ہے جن میں کتاب و سنت میں واضح حکم موجود نہ ہو ۔ اور جہاں واضح حکم موجود ہو وہاں مشورہ کی ضرورت نہیں۔ مشورہ یہ عموماً تدبیری معاملات میں کیا جاتا ہے۔ فوج کے سربراہوں سے فوجی معاملات میں مثلاً جنگ کہاں لڑی جائے۔ اس کا طریق کار کیا ہو۔ قیدیوں سے کیا سلوک کیا جائے، برسر اقتدار لوگوں سے مشاورت کی جائے جیسے یہ کہ لوگوں کی معاشی اور اخلاقی بہبود کے لیے کیا طریقے اختیار کیے جائیں ۔ مشورہ میں یہ بھی دیکھا جائے گا کہ کونسی رائے قرآن و سنت کی روشنی اور منشا کے مطابق ہے خواہ وہ تھوڑے لوگوں کی ہی ہو۔ اصل مقصد دلیل کی تلاش ہے کثرت یا قلت اس پر اثرانداز نہیں ہوتی۔ اور آخر ہی فیصلہ امیر مجلس کا ہوتا ہے پھر جس پر آپ کی رائے پختہ ہوجائے، تو پھر اللہ پر توکل کرکے اسے کر گزریئے اور سارا اعتماد اللہ کی ذات پر ہونا چاہیے نہ کہ مشورہ دینے والوں کی عقل و فہم پر۔