يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ إِذَا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ أَوْ كَانُوا غُزًّى لَّوْ كَانُوا عِندَنَا مَا مَاتُوا وَمَا قُتِلُوا لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذَٰلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ ۗ وَاللَّهُ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
اے ایمان والو! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے کفر کیا اپنے بھائیوں کے حق میں جب کہ وہ سفر میں ہوں یا جہاد میں کہا اگر ہمارے پاس ہوتے نہ مرتے اور نہ مارے جاتے (١) اس کی وجہ یہ تھی کہ اس خیال کو اللہ تعالیٰ ان کی دلی حسرت کا سبب بنا دے (٢) اللہ تعالیٰ جلاتا اور مارتا ہے اور اللہ تمہارے عمل کو دیکھ رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو اس فاسد، عقیدہ سے روک رہے ہیں۔ جو کفار اور منافقین کا عقیدہ تھا۔ کیونکہ یہ عقیدہ بزدلی کی بنیاد ہے۔ ایسے خیالات کہ اگر وہ فلاں سفر پر نہ جاتا تو شاید بچ جاتا ۔ محض حسرت ہی حسرت ہے۔ ورنہ جو اللہ گھر میں زندہ رکھتا ہے جہاد میں بھی رکھ سکتا ہے اور جو جہاد میں مارسکتا ہے وہ گھر میں بھی مار سکتا ہے۔ موت تو بند قلعوں میں بھی آلیتی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ كُنْتُمْ فِيْ بُرُوْجٍ مُّشَيَّدَةٍ﴾ (النساء: ۷۸) ’’تم جہاں کہیں بھی ہو، موت تمہیں پالے گی۔ اگرچہ تم مضبوط قلعوں میں ہو۔‘‘ اس لیے اس حسرت سے مسلمان ہی بچ سکتا ہے جن کے عقیدے صحیح ہیں کہ زندگی موت اللہ کے اختیار میں ہے۔