وَقِيلِهِ يَا رَبِّ إِنَّ هَٰؤُلَاءِ قَوْمٌ لَّا يُؤْمِنُونَ
اور ان کا (پیغمبر کا اکثر) یہ کہنا (١) کہ اے میرے رب! یقیناً یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان نہیں لاتے۔
ایسا وقت غالباً سب پیغمبروں پر آتا ہے جب وہ اپنی قوم کو سمجھانے میں اپنی جان تک کھپا دیتے ہیں پھر بھی اکثر لوگ پیغمبروں کی بات سمجھنے کی بجائے ان کی جان کے دشمن بن جاتے ہیں۔ تو اس وقت پیغمبر ایسی قوم کے ایمان لانے سے سخت مایوس ہو جاتے ہیں اور ان کی زبان سے بے ساختہ ایسے الفاظ نکل جاتے ہیں۔ سیدنا نوح علیہ السلام نے بھی اسی طرح مایوس ہو کر یہ دعا کی تھی کہ : یا اللہ! اب ان کافروں میں سے کسی ایک کو زندہ نہ چھوڑ۔ کیوں کہ ان بد بختوں کے ہاں جو اولاد پیدا ہو گی مجھے ان سے بھی ایمان لانے کی توقع نہیں رہی۔ ان کی اولاد بھی فاسق اور کافر ہی پیدا ہو گی (سورہ نوح آیت نمبر ۷۱) کچھ ایسی ہی صورت حال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی اس مخلصانہ التجا اور درد بھری آواز کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ بہرحال نہ ماننے کا تہیہ کیے بیٹھے ہیں، لہٰذا اللہ اپنے رسول کی ضرور مدد کرے گا اور اپنی رحمت سے ان کو غالب اور اپنے کلمہ کو سر بلند کرے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکایت: سورہ فرقان (۳۰) میں ارشاد ہے کہ: ﴿وَ قَالَ الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا﴾ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شکایت اللہ کے سامنے یہ ہو گی کہ میری اُمت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔