سورة الشورى - آیت 32

وَمِنْ آيَاتِهِ الْجَوَارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلَامِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور دریا میں چلنے والی پہاڑوں جیسی کشتیاں اس کی نشانیوں میں سے ہیں (١)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

سمندروں کی تسخیر قدرت الٰہی کی نشانی: قرآن کریم میں متعدد مقامات پر کشتیوں کی روانی کو اللہ کی آیات میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ قریش مکہ کو تجارتی سلسلہ میں افریقہ کے ساحلی علاقہ سے تجارت کے لیے بحیرہ احمر کا سفر درپیش رہتا تھا۔ اس دور میں بادبانی کشتیاں ہوتی تھیں جن کی روانی اور رفتار کا انحصار باد موافق پر اور اس کی رفتار پر ہوتا تھا۔ انہیں بتایا جا رہا ہے کہ تمھاری بے بسی کا یہ عالم ہے کہ جب تمھاری کشی وسط سمندر میں پہنچ جائے اور اللہ تعالیٰ ہوا کو ساکن کر دے تو بتاؤ اس وقت تم کیا کر سکتے ہو؟ صبار اور شکور: یہ دو ایسے الفاظ ہیں جن میں مومن کی ساری زندگی کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا گیا ہے یعنی مومن پر جب بھی کوئی مصیبت یا تکلیف آتی ہے تو وہ صبر اور برداشت سے کام لیتا ہے۔ اور جب بھی اللہ کی کوئی نعمت ملتی ہے یا اسے بھلائی پہنچتی ہے۔ تو وہ اللہ کا احسان مند ہوتا ہے۔ اور اس کا شکر ادا کرنے لگ جاتا ہے۔ اس کے برعکس ایک کافر اور دنیا دار کا وتیرہ یہ ہوتا ہے۔ کہ مصیبت پڑنے پر جزع فزع کرتا اور اللہ کی رحمت سے مایوس ہو کر اسے کوسنے لگتا ہے۔ اور جب اسے کوئی بھلائی نصیب ہوتی ہے یا خوشحالی کا دور آتا ہے تو پھر وہ اللہ کو بھول ہی جاتا ہے۔ گویا ایک مومن سمندر کے سفر میں اگر حالات ساز گار ہوں تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔ اور اگر ہوا بند ہو جائے تو اس کی نظر اللہ ہی پر رہتی ہے اور وہ صبر کا مظاہرہ کرتا ہے۔