وَالَّذِينَ يُحَاجُّونَ فِي اللَّهِ مِن بَعْدِ مَا اسْتُجِيبَ لَهُ حُجَّتُهُمْ دَاحِضَةٌ عِندَ رَبِّهِمْ وَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ
اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی باتوں میں جھگڑا ڈالتے ہیں اس کے بعد کہ (مخلوق) انہیں مان چکی (١) ان کی خواہ مخواہ کی حجت اللہ کے نزدیک باطل ہے اور ان پر غضب ہے اور ان کے لئے سخت عذاب ہے۔
مکہ میں اگر کوئی شخص مسلمان ہو جاتا تو اس کے مشرک دوست اور لواحقین ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ جاتے اور اس سے بحثیں اور لڑائی جھگڑا کر کے اسے زچ کر دیتے اور اس بات پر مجبور کر دیتے کہ وہ پھر سے اسلام چھوڑ کر ان کے آبائی دین میں شامل ہو جائے۔ یہ تو انفرادی صورت تھی اور اجتماعی صورت یہ تھی کہ کفار کی مخالفت اور اذیت کے باوجود بھی اسلام پھیل رہا تھا اور مسلمانوں کی تعداد میں دم بدم اضافہ ہو رہا تھا۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے کافر متحد ہو کر میدان میں اتر آئے تھے اور اس دعوت کو روکنے کے لیے کبھی دھمکی، کبھی لالچ، کبھی سمجھوتہ، کبھی مکمل بائیکاٹ، کبھی استہزا اور کبھی فضول قسم کے اعتراضات اور بحثوں کے راستے کھولے جا رہے تھے۔ اس صورت حال کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب سنجیدہ اور عقل مند طبقہ اسلام کے دلائل سے متاثر ہو کر اس کی حقانیت پر ایمان لا چکا ہے اور اللہ کی توحید کو تسلیم کیا جا چکا ہے۔ تو اب کافروں کے یہ جھگڑے عبث اور بے کار ہیں۔ یہ جو چاہیں کر لیں، اللہ ان کی سازشوں کو کبھی کامیاب نہ ہونے دے گا اور حق سر بلند ہو کر رہے گا۔ البتہ حق کو دبانے کے لیے جتنا زور یہ صرف کر رہے ہیں اتنا ہی اللہ کا غضب ان پر بھڑکتا ہے۔ اور اتنی ہی شدید سزا انہیں دی جائے گی۔