وَمَا تَفَرَّقُوا إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى لَّقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ أُورِثُوا الْكِتَابَ مِن بَعْدِهِمْ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيبٍ
ان لوگوں نے اپنے پاس علم آجانے کے بعد ہی اختلاف کیا اور وہ بھی باہمی ضد بحث سے اور اگر آپ کے رب کی بات ایک وقت تک کے لئے پہلے ہی سے قرار پا گئی ہوئی ہوتی تو یقیناً ان کا فیصلہ ہوچکا ہوتا (١) اور جن لوگوں کو ان کے بعد کتاب دی گئی وہ بھی اس کی طرف سے الجھن والے شک میں پڑے ہوئے ہیں۔
یعنی جب ان کے پاس حق آ گیا۔ ان پر حجت قائم ہو گئی اس وقت وہ آپس میں ضد اور بحث کی بنا پر مختلف ہو گئے اور اگر قیامت کا دن حساب کتاب اور جزا سزا کے لیے پہلے سے مقرر شدہ نہ ہوتا۔ تو ان کے ہر عمل کی سزا انھیں یہیں اسی وقت مل جایا کرتی۔ کتاب کے وارث: اس سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں جو اپنے سے ما قبل کے یہود و نصاریٰ کے بعد کتاب یعنی تورات اور انجیل کے وارث بنائے گئے۔ یا مراد عرب ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنا قرآن نازل فرمایا اور انہیں قرآن کا وارث بنایا۔ پہلی الہامی کتابیں مشکوک کیسے ہوئیں؟ : ان وارثوں کے اپنی الہامی کتابوں کے بارے میں شک میں پڑنے کی کئی وجوہ تھیں۔ (۱)ان کتابوں کی اصل زبان اور اصل عبارت کو محفوظ رکھ کر آنے والی نسلوں تک نہ پہنچایا گیا۔ صرف تراجم سے کام لیا جانے لگا اور ان کو ہی الہامی کتاب سمجھا جانے لگا۔ (۲)بزرگوں کے اقوال اور الحاقی مضامین اس میں شامل کر دئیے گئے حتی کہ دونوں قسم کی عبارتوں میں تمیز کرنا مشکل ہو گیا۔ (۳)ان کی تاریخی سند بھی ضائع کر دی گئی۔ ان سب باتوں کا اثر یہ ہوا کہ بعد میں آنے والے علما خود اس کتاب سے شک میں پڑ گئے کہ اس کا کونسا حصہ درست اور الہامی ہے اور کون سی عبارت بزرگوں کے اقوال وغیرہ پر مشتمل ہے اور کسی بات کا صحیح فیصلہ کرنے میں یہی شک و شبہ انھیں اضطراب میں ڈالے رکھتا ہے۔