وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِّتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَىٰ وَمَنْ حَوْلَهَا وَتُنذِرَ يَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَيْبَ فِيهِ ۚ فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ
اس طرح ہم نے آپ کی طرف عربی قرآن کی وحی کی ہے (١) تاکہ آپ مکہ والوں کو اور اس کے آس پاس کے لوگوں کو خبردار کردیں اور جمع ہونے کے دن (٢) جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ڈرا دیں۔ ایک گروہ جنت میں ہوگا اور ایک گروہ جہنم میں ہوگا۔
یعنی جس طرح ہم نے رسول اس کی قوم کی زبان میں بھیجا۔ اس طرح ہم نے آپ پر عربی زبان میں قرآن نازل کیا۔ کیوں کہ آپ کی قوم یہی زبان بولتی اور سمجھتی ہے۔ اُمُّ الْقُرٰی مکے کانام ہے۔ اسے ’’بستیوں کی ماں‘‘ اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ عرب کی قدیم ترین بستی ہے۔ گویا یہ تمام بستیوں کی ماں ہے۔ جنہوں نے اسی سے جنم لیا ہے۔ مراد اہل مکہ ہیں۔ وَمَنْ حَوْلَھَا میں اس کے شرق و غرب کے تمام علاقے شامل ہیں۔ یعنی ان سب کو ڈرائیں کہ اگر وہ کفر و شرک سے تائب نہ ہوئے تو عذاب الٰہی کے مستحق قرار پائیں گے۔ جمع ہونے والا دن: قیامت کے دن کو جمع ہونے والا دن اس لیے کہا گیا ہے کہ اس میں اگلے پچھلے تمام انسان جمع ہوں گے علاوہ ازیں ظالم مظلوم اور مومن و کافر سب جمع ہوں گے اور اپنے اپنے اعمال کے مطابق جزا و سزا سے بہرہ ور ہوں گے۔ دو گروہ: جو اللہ کے حکموں کو بجا لایا ہو گا اس کی منہیات و محرمات سے دور رہا ہو گا وہ جنت میں جائے گا اور اس کی نافرمانی اور محرمات کا ارتکاب کرنے والا جہنم میں ہو گا۔ یہی دو گرو ہوں گے تیسرا کوئی گروہ نہیں ہو گا۔