سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ۗ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ
عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر کھل جائے کہ حق یہی ہے کیا آپ کے رب کا ہر چیز سے واقف و آگاہ ہونا کافی نہیں (١)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قران کریم کی نشانیاں اور حجتیں انھیں ان کے گرد و نواح میں دنیا کے چاروں طرف دکھا دیں گے۔ مسلمانوں کو فتوحات حاصل ہوں گی، وہ سلطنتوں کے سلطان بنیں گے۔ تمام ادیان پر اس دین کا غلبہ ہو گا۔ فتح بدر اور فتح مکہ کی نشانیاں خود ان میں موجود ہوں گی۔ کافر لوگ تعداد اور شان و شوکت میں بہت زیادہ ہوں گے پھر بھی مٹھی بھر اہل حق انہیں زیر و زبر کر دیں گے۔ اور ممکن ہے یہ مراد ہو کہ حکمت الٰہی کی ہزار ہا نشانیاں خود انسان کے اپنے وجود میں موجود ہیں۔ اس کی صفت و بناوٹ، اس کی ترکیب و جبلت، اس کے جداگانہ اخلاق، مختلف صورتیں اور رنگ روپ وغیرہ۔ اس خالق و صانع کی بہترین یاد گاریں ہر وقت اس کے سامنے ہیں بلکہ اس میں موجود ہیں۔ کبھی کوئی حالت کبھی کوئی حالت، بچپن، جوانی، بڑھاپا، بیماری، تندرسی، فراخی، رنج و راحت وغیرہ اوصاف جو اس پر طاری ہوتی ہے۔ الغرض یہ بیرونی اور اندرونی آیات قدرت اس قدر ہیں کہ انسان اللہ کی باتوں کی حقانیت کو ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کی گواہی بس کافی ہے۔ وہ اپنے بندوں کے اقوال و افعال سے بخوبی واقف ہے۔ جیسا کہ سورہ النساء (۱۶۶) میں ارشاد فرمایا کہ: ﴿لٰكِنِ اللّٰهُ يَشْهَدُ بِمَا اَنْزَلَ اِلَيْكَ اَنْزَلَهٗ بِعِلْمِهٖ﴾ جو کچھ آپ کی طرف اُترا ہے اس کی بابت اللہ خود گواہی دیتا ہے کہ اسے اپنے علم سے اتارا ہے۔ اور فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بطور گواہ کافی ہے۔