وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَاخْتُلِفَ فِيهِ ۗ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۚ وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيبٍ
یقیناً ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی تھی، سو اس میں بھی اختلاف کیا گیا اور اگر (وہ) بات نہ ہوتی (جو) آپ کے رب کی طرف سے پہلے ہی مقرر ہوچکی ہے (١) تو ان کے درمیان (کبھی) کا فیصلہ ہوچکا ہوتا (٢) یہ لوگ تو اسکے بارے میں سخت بے چین کرنے والے شک میں ہیں (٣)
اللہ تعالیٰ پھر فرماتا ہے کہ ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو کتاب دی۔ لیکن اس میں بھی اختلاف کیا گیا۔ انہیں بھی ستایا اور جھٹلایا گیا۔ پس جیسے انہوں نے صبر کیا آپ کو بھی صبر کرنا چاہیے کیوں کہ پہلے ہی سے تیرے رب نے اس بات کا فیصلہ کر لیا ہے، کہ ایک وقت مقررہ یعنی قیامت تک عذاب رکے رہیں گے۔ اس لیے یہ مہلت مقرر ہے، ورنہ ان کے کرتوت تو ایسے نہ تھے کہ یہ چھوڑ دئیے جائیں اور کھاتے پیتے رہیں۔ بلکہ یہ ابھی ہی ہلاک کر دئیے جاتے۔ جو اپنے بعض مفادات اور سرداریوں کی بقا کی خاطر دعوت حق کو بہرحال جھٹلانے پر تلے بیٹھے ہیں، اور پوری سر گرمیاں اس دعوت کو مٹانے میں صرف کر رہے ہیں۔ اگرچہ ان کے دل اس دین کی دعوت کو تسلیم کرتے ہیں مگر اندر ہی اندر انھیں یہ خدشہ کھائے جا رہا ہے کہ اگر اسلام کو غلبہ حاصل ہو گیا تو پھر ہماری خیر نہیں۔