الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
جو لوگ آسانی میں اور سختی کے موقع پر بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں (١) غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے (٢) اللہ نیکو کاروں سے محبت کرتا ہے۔
سود کا ذکر کرنے کے بعد جو دوزخ میں لے جانے والا عمل ہے۔ اب جنت میں لے جانے والے اعمال کا ذکر فرمایا ہے اور جنت میں داخل ہونے والے پرہیز گاروں کی چند صفات کا ذکر فرمایا جو یہ ہیں: انفاق فی سبیل اللہ: جو سود خوری کی عین ضد ہے۔ سود خور میں حرص، طمع، بخل اور ذرپرستی جیسی صفات پیدا ہوتی ہیں۔ اور سود دینے والے کے دل میں سود لینے والے کے لیے نفرت بغض اور حسد پیدا ہوتا ہے صدقہ و خیرات دینے والے کے دل میں احسان مندی اور شکر گزاری کے احساسات پیدا ہوتے ہیں جس سے پورے معاشرے میں ایک دوسرے کے لیے ہمدردی، مروت، اخوت، اتفاق، اتحاد اور محبت جیسی صفات پیدا ہوتی ہیں۔ (۱)متقین کی پہلی صفت راہِ خدا میں خرچ کرنا: خوشحالی ہو خواہ تنگدستی ہر حال میں اپنی حیثیت کے مطابق اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ رسول اللہ مسلمانوں کو صدقہ کی ترغیب دیتے تھے فرمایا ’’دوزخ کی آگ سے بچو خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی صدقہ دے کر۔‘‘ (بخاری: ۱۴۱۷) ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کس طرح کے صدقہ میں زیادہ ثواب ہے۔ فرمایا اس طرح کہ جب تم بالکل صحت مند ہو، بخل سے ڈرو امید ہے کہ غنی ہوجاؤ گے فقیری کا ڈر ہو جان کنی کے وقت صدقہ قبول نہیں ہوتا، مفلس وہ ہے جس نے اپنا مال زندگی میں اللہ کی راہ میں خرچ نہ کیا۔ (بخاری: ۴۱۹) دوسری صفت غصہ پی جانا: غصہ ہمیشہ ایسے شخص پر آتا ہے جو کمزور ہو اور انسان اس سے انتقام لینے کی طاقت رکھتا ہو ایسے وقت میں غصہ کو برداشت کرجانا فی الواقع بڑے حوصلے کا کام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بہادر وہ نہیں جو کسی دوسرے کو لڑائی میں پچھاڑ دے بلکہ بہادر وہ ہے جو غصہ کو برداشت کرجائے۔ (مسلم۲۶۰۹/بخاری: ۶۱۱۴) تیسری صفت معاف کردینا: غصہ پی جانا اور معاف کردینا الگ الگ کام ہیں ممکن ہے کہ کوئی شخص وقتی طور پر غصہ پی جائے اور بعد میں کسی وقت اس سے انتقام لے لے۔ گویا غصہ پی جانے کے بعد قصور وار کو معاف کردینا ایک الگ اعلیٰ صفت ہے اور اللہ ایسے ہی نیکو کاروں سے محبت رکھتا ہے جن میں یہ باتیں پائی جاتی ہوں۔