وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا رَبَّنَا أَرِنَا اللَّذَيْنِ أَضَلَّانَا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ نَجْعَلْهُمَا تَحْتَ أَقْدَامِنَا لِيَكُونَا مِنَ الْأَسْفَلِينَ
اور کافر لوگ کہیں گے اے ہمارے رب! ہمیں جنوں انسانوں (کے وہ دونوں فریق) دکھا جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا (١) ہے (تاکہ) ہم انہیں اپنے قدموں تلے ڈال دیں تاکہ وہ جہنم میں سب سے نیچے (سخت عذاب میں) ہوجائیں۔ (٢)
اس کا مفہوم واضح ہے کہ گمراہ کرنے والے شیاطین ہی نہیں ہوتے۔ بلكہ انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی شیطان کے زیر اثر لوگوں کو گمراہ کرنے میں مصروف رہتی ہے۔ پس کفار قیامت کے دن ان کے لیے دوہرے عذاب کی درخواست کریں گے اپنے لیڈروں پر جو غصہ ہو گا اس کی تشفی کے لیے وہ یہ کہیں گے’’ ہم انھیں اپنے قدموں سے روندیں اور انھیں خوب ذلیل و رسوا کریں۔ یہ دونوں ہی مجرم ہیں اور دونوں ہی یکساں جہنم کی سزا بھگتیں گے۔ جیسا کہ سورہ اعراف (۳۸) میں ارشاد فرمایا: ﴿لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ﴾ جہنمیوں کے تذکر کے بعد اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا تذکرہ فرما رہا ہے۔ جیسا کہ عام طور پر قرآن کا انداز ہے تاکہ ترہیب کے ساتھ ترغیب اور ترغیب کے ساتھ ترہیب کا اہتمام بھی رہے گویا انذار کے بعد تبشیر۔