سورة فصلت - آیت 21

وَقَالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدتُّمْ عَلَيْنَا ۖ قَالُوا أَنطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنطَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ خَلَقَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یہ اپنی کھالوں سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف شہادت کیوں دی (١) وہ جواب دیں گی ہمیں اس اللہ نے قوت گویائی عطا فرمائی جس نے ہر چیز کو بولنے کی طاقت بخشی ہے، اسی نے تمہیں اول مرتبہ پیدا کیا اور اسی کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے۔ (٢)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یعنی جب گنہگاروں کو جہنم کے کنارے کھڑا کر دیا جائے گا اور ان کے اعضاء بدن جیسے کان اور آنکھیں اور پوست ان کے اعمال کی گواہیاں دیں گی۔ تمام اگلے پچھلے عیوب کھل جائیں گے ہر عضو بدن پکار اٹھے گا کہ مجھ سے اس نے یہ یہ گناہ کیا۔ اس وقت یہ اپنے اعضا کی طرف متوجہ ہو کر انھیں ملامت کریں گے کہ تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی؟ وہ کہیں گے، اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری کے ماتحت، اس نے ہمیں بولنے کی طاقت دی اور ہم نے سچ سچ کہہ سنایا۔ وہی تو تمہارا پیدا کرنے والا ہے۔ اسی نے ہر چیز کو زبان عطا فرمائی ہے۔ خالق کی مخالفت اور اس کے حکم کی خلاف ورزی کون کر سکتا ہے۔ انسانی اعضا کے گواہی دینے کا ذکر اس سے قبل سورہ نور (۲۴) سورہ یٰسٓ (۶۵) میں بھی گزر چکا ہے اور صحیح احادیث میں بھی اسے بیان کیا گیا ہے۔ (مسلم کتاب الزہد) میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ مسکرائے یا ہنس دئیے پھر فرمایا تم میری ہنسی کی وجہ دریافت نہیں کرتے؟ ’’صحابہ نے عرض کیا: فرمائیے کیا وجہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن بندہ اپنے رب سے جھگڑے گا اور کہے گا اے اللہ تیرا وعدہ نہیں کہ تو ظلم نہ کرے گا؟ اللہ تعالیٰ اقرار کرے گا تو بندہ کہے گا کہ میں تو اپنی بد اعمالیوں پر کسی کی شہادت قبول نہیں کرتا اللہ تعالیٰ فرمائے گا، کیا میری اور میرے بزرگ فرشتوں کی شہادت ناکافی ہے؟ لیکن پھر بھی وہ بار بار اپنی ہی کہتا چلا جائے گا۔ پس اتمام حجت کے لیے اس کی زبان بند کر دی جائے گی اور اس کے اعضا بدن سے کہا جائے گا کہ اس نے جو جو کیا تھا اس کی گواہی تم دو۔ جب وہ صاف صاف سچی گواہی دے دیں گے تو یہ انھیں ملامت کرے گا اور کہے گا کہ میں تو تمہارے ہی بچاؤ کے لیے لڑ جھگڑ رہا تھا۔ (مسلم: ۲۹۶۹)