فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا صَرْصَرًا فِي أَيَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِيقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَخْزَىٰ ۖ وَهُمْ لَا يُنصَرُونَ
بالآخر ہم نے ان پر ایک تیز تند آندھی (١) منحوس دنوں میں (٢) بھیج دی کہ انہیں دنیاوی زندگی میں ذلت کے عذاب کا مزہ چکھا دیں، اور (یقین مانو) کہ آخرت کا عذاب اس سے بہت زیادہ رسوائی والا اور وہ مدد نہیں کئے جائیں گے۔
کوئی دن بذات خود منحوس نہیں ہوتا: یعنی وہ دن قوم عاد کے لیے منحوس تھے ورنہ کوئی دن بذات خود منحوس نہیں ہوتا نہ سعید ہوتا ہے۔ جس طرح فرعون اور اس کے ساتھی بحیرہ قلزم میں غرق ہوئے وہ دن فرعون اور آل فرعون کے لیے منحوس تھا مگر موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے لیے مبارک تھا علاوہ ازیں اگر یہ دن بذات خود منحوس ہوتے تو عذاب صرف قوم عاد کے مجرموں پر ہی نہ آتا بلکہ ساری دنیا پر آتا۔ قوم عاد پر ٹھنڈی اور تیز ہوا کا عذاب: اللہ تعالیٰ نے ان کا غرور توڑنے کے لیے ہوا کو حکم دیا صر صر یعنی ایسی ہوا جس میں سخت آواز تھی۔ یعنی نہایت تند و تیز ہوا۔ اس کی تیزی کا یہ حال تھا کہ اس نے کوئی درخت صحیح و سالم چھوڑا نہ مکان نہ مواشی اور نہ انسان۔ سب ایک دوسرے پر گرے پڑے تھے ۔ گر گر کر مر جاتے اور مر مر کر گرتے جاتے تھے۔ آٹھ دن اور سات راتیں آندھی نے اسی طرح اپنا زور دکھایا۔ اس مغرور قوم کے صرف غرور کو ہی نہ توڑا بلکہ پوری قوم کے افراد کا ستیاناس کر کے رکھ دیا۔ یہ تو تھا ان کے لیے دنیا کا عذاب۔ اور اخروی عذاب جو ان کے کرتوتوں کا اصل بدلہ ہو گا وہ تو اور بھی زیادہ رسوا کرنے والا ہوگا۔ دنیا میں بھی انھیں اللہ کے عذاب سے کوئی چیز نہ بچا سکی تو آخرت میں تو کوئی ان کی مدد کے لیے نہ اٹھے گا۔