فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَقَالُوا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ۖ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَهُمْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ
اب قوم عاد نے تو بے وجہ زمین میں سرکشی شروع کردی اور کہنے لگے ہم سے زور آور کون ہے؟ (١) کیا انہیں یہ نظر نہ آیا کہ جس نے اسے پیدا کیا وہ ان سے (بہت ہی) زیادہ زور آور ہے، (٢) وہ (آخر تک) ہماری آیتوں کا (٣) انکار ہی کرتے رہے۔
حق کو قبول کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ تکبر ہی ہوا کرتا ہے۔ لہٰذا چودھری ٹائپ لوگ سینہ تان کر رسولوں کی مخالفت پر اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اپنے حلقہ اثر کے لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں۔ اور یہ قوم عاد تو تھے بھی بڑے قد و قامت والے اور بڑے زور آور۔ ان کی سرکشی اور ان کا غرور حد کو پہنچ گیا۔ تکبر میں آکر کہنے لگے، اللہ کےعذاب ہمارا کیا بگاڑ لیں گے۔ اس قدر پھولے کہ اللہ کو بھول گئے۔ یہ بھی خیال نہ رہا کہ پیدا کرنے والا اتنا قوی ہے کہ اس کی زور آوری کا ہم اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ جیسا کہ سورہ الذاریات (۴۷) میں ہے: ﴿وَ السَّمَآءَ بَنَيْنٰهَا بِاَيْىدٍ وَّ اِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ﴾ ہم نے اپنے ہاتھوں آسمان کو پیدا کیا اور ہم بہت ہی طاقتور اور زور آور ہیں۔ آیات کے انکار سے مراد: ان معجزات کو جو انبیا کرام کو ہم نے دئیے تھے یا ان دلائل کا جو پیغمبروں کے ساتھ نازل کیے تھے یا ان آیات تکوینیہ کا جو کائنات میں پھیلی اور بکھری ہوئی ہیں۔ پس ان کے تکبر پر اور اللہ کے رسولوں کو جھٹلانے پر اللہ کی آیات کے انکار پر ان پر عذاب الٰہی آ پڑا۔