الَّذِينَ لَا يُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُم بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ
جو زکوٰۃ نہیں دیتے (١) اور آخرت کے بھی منکر ہی رہتے ہیں۔
جو زکوٰۃ نہیں دیتے: یہ سورت مکی ہے، زکوٰۃ ہجرت کے دوسرے سال فرض ہوئی۔ اس لیے اس سے مراد یا تو صدقات ہیں جس کا حکم مسلمانوں کو مکے میں بھی دیا جاتا رہا ہے۔ جس طرح پہلے صرف صبح و شام کی نماز کا حکم تھا پھر ہجرت سے ڈیڑھ سال قبل لیلۃ الاسراء کو پانچ نمازوں کا حکم ہوا۔ یا پھر زکوٰۃ سے یہاں مراد کلمہ شہادت ہے۔ جس سے نفس انسانی شرک کی آلودگیوں سے پاک ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ سورہ شمس (۹) میں ہے کہ: ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا﴾ اس نے فلاح پائی جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا اور وہ ہلاک ہوا جس نے اسے دبا دیا سورہ اعلیٰ میں ہے کہ: ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى ۔ وَ ذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰى﴾ (الاعلیٰ: ۱۴۔ ۱۵) اس نے نجات حاصل کر لی جس نے اپنے رب کا نام ذکر کیا پھر نماز ادا کی۔ ان آیتوں میں زکوٰۃ یعنی پاکی سے مطلب نفس کو بیہودہ اخلاق سے دور کرنا ہے اور سب سے بڑی اور پہلی قسم اس کی شرک سے پاک ہونا ہے۔ اسی طرح آیت مندرجہ بالا میں بھی زکوٰۃ دینے سے مراد توحید کا ماننا ہے۔