بَشِيرًا وَنَذِيرًا فَأَعْرَضَ أَكْثَرُهُمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ
خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا (١) ہے پھر بھی ان کی اکثریت نے منہ پھیر لیا اور وہ سنتے ہی نہیں (٢)۔
اکثر لوگوں نے اعتراض کیا: قرآن کی ان گونا گوں خوبیوں کے باوجود زیادہ تر لوگ اس کی مخالفت پر اتر آئے۔ وہ اس کی آیات کو سننا بھی گوارا نہیں کرتے تسلیم کرنا تو درکنار۔ پھر اپنی خصلت پر فخر بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کی تعلیم ہمارے دلوں پر مطلق اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ ہمارے دل ایسے اثر قبول کرنے سے کلیتاً محفوظ ہیں۔ ایسی باتیں سن سن کر ہمارے کان پک گئے ہیں لہٰذا وہ سننے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہاری اس دعوت سے تمہارے اور ہمارے درمیان عداوت کی ایک دیوار حائل ہو چکی ہے۔ اور اس دعوت نے ہمارے اور تمہارے درمیان جدائی ڈال دی ہے لہٰذا ہم تمہاری اس دعوت کو کسی قیمت پر قبول کرنے کو تیار نہیں۔