يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اے ایمان والو! بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤ (١) اللہ تعالیٰ سے ڈرو تاکہ تمہیں نجات ملے۔
معاہدے میں بندھے ہوئے لوگ جو ایمان لے آئے ہیں ان سے کہا گیا کہ مال کی محبت چھوڑدو۔ اور سود نہ کھاؤ غزوۂ احد میں مسلمانوں کی ابتدائی شکست کا سبب یہ تھا کہ مسلمانوں کا وہ دستہ جو سیدنا عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں درہ خیبر کی حفاظت پر مامو رتھا اس نے جب فتح کے آثار دیکھے تو طمع سے مغلوب ہوکر اپنے کام کو تکمیل تک پہنچانے کی بجائے مال غنیمت لوٹنے میں لگ گیا، اللہ تعالیٰ نے اس صورت حال کی اصلاح کے لیے زرپرستی کے سرچشمے پر بند باندھنا ضروری سمجھا۔ زمانہ جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ جب ادائیگی کی مدت آجاتی اور ادائیگی ممکن نہ ہوتی تو مزید مدت کے ساتھ سود میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا تھا جس کی وجہ سے تھوڑی سی رقم بڑھ چڑھ کر کہیں سے کہیں پہنچ جاتی تھی۔ سود کا خاصہ یہ ہے کہ سود خور میں حرص و طمع، بخل و بزدلی اور خودغرضی و زر پرستی جیسی رذیل صفات پیدا ہو جاتی ہیں۔ اور سود اداکرنے والوں میں نفرت، غصہ، بغض و حسد جیسی صفات پیدا ہوجاتی ہیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سونے کو سونے کے بدلے صرف برابر برابر (وزن کے ساتھ) ہی فروخت کرو۔ (مسلم: ۱۵۹۱)