لَا جَرَمَ أَنَّمَا تَدْعُونَنِي إِلَيْهِ لَيْسَ لَهُ دَعْوَةٌ فِي الدُّنْيَا وَلَا فِي الْآخِرَةِ وَأَنَّ مَرَدَّنَا إِلَى اللَّهِ وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحَابُ النَّارِ
یہ یقینی امر ہے (١) کہ مجھے جس کی طرف بلا رہے ہو وہ تو نہ دنیا میں پکارے جانے کے قابل ہے (٢) نہ آخرت میں (٣) اور یہ بھی (یقینی بات ہے) کہ ہم سب کا لوٹنا اللہ کی طرف ہے (٤) اور حد سے گزر جانے والے ہی (یقیناً) اہل دوزخ ہیں۔ (٥)
یعنی ان چیزوں کو نہ دنیا میں یہ حق پہنچتا ہے نہ آخرت میں کہ ان کی خدائی کو تسلیم کرنے کے لیے لوگوں کو دعوت دی جائے۔ نہ یہ آخرت میں کسی کی پکار سن کر کسی کو عذاب سے چھڑانے پر اور نہ کسی کی شفاعت ہی کرنے پر قادر ہوں گے۔ لوٹنا اللہ کی طرف ہے: جہاں ہر ایک کا حساب ہو گا اور اس کے عمل کے مطابق اسے اچھی یا بری سزا دی جائے گئی۔ یعنی کافر و مشرک جو اللہ کی نافرمانی میں حد سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ اسی طرح جو بہت زیادہ گناہگار مسلمان ہوں گے جن کی نافرمانیاں ’’ اسراف‘‘ کی حد تک پہنچی ہوئی ہوں گی۔ انہیں بھی کچھ عرصہ جہنم کی سزا بھگتنی ہو گی، تاہم بعد میں شفاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا اللہ کی مشیئت سے ان کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔