وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ ۖ وَإِن يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ ۖ وَإِن يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُم بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ
اور ایک مومن شخص نے، جو فرعون کے خاندان میں سے تھا اور اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا، کہا کہ تم ایک شخص کو محض اس بات پر قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور تمہارے رب کی طرف سے دلیلیں لے کر آیا ہے (١) اگر وہ جھوٹا ہو تو اس کا جھوٹ اسی پر ہے اور اگر وہ سچا ہو، تو جس (عذاب) کا وہ تم سے وعدہ کر رہا ہے اس میں کچھ نہ کچھ تو تم پر آپڑے گا، (٢) اللہ تعالیٰ اس کی رہبری نہیں کرتا جو حد سے گزر جانے والے اور جھوٹے ہوں۔ (٣)
ایک مرد مومن اور فرعون کا مکالمہ: جب فرعون نے بھرے دربار میں یہ بات کہی تو اس مرد مومن سے ضبط نہ ہو سکا اور فوراً بول اٹھا کہ جس شخص کو تم قتل کرنے کے درپے ہو آخر اس کا جرم کیا ہے۔ کیا اس کا جرم یہی ہے وہ تمہیں پررودگار کی طرف بلاتا ہے۔ پھر اس کے پاس واضح دلائل موجود ہیں جنھیں تم بھی جانتے ہو کہ وہ اپنے قول میں سچا ہے۔ کیا یہ ایسا جرم ہے کہ اسے مستوجب قتل قرار دیا جائے اس مرد مومن نے اپنا سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اگر اس کے دلائل سے تم مطمئن نہیں اور اس کی صداقت اور اس کی دعوت کی صحت تم پر واضح نہیں ہوئی، تب بھی عقل و دانش اور احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ اس سے تعرض نہ کیا جائے۔ اگر وہ جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ خود ہی اسے اس جھوٹ کی سزا دنیا و آخرت میں دے دے گا۔ اور اگر وہ سچا ہے اور تم نے اسے ایذائیں پہنچائیں تو پھر یقیناً وہ تمہیں جن عذابوں سے ڈراتا ہے۔ تم پر ان میں سے کوئی عذاب آ سکتا ہے۔ حد سے بڑھنے والا: یعنی نعوذ باللہ اگر موسیٰ علیہ السلام جھوٹ سے کام لے رہے ہیں کہ اس کام میں اس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ تم انہیں قتل کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہو۔ تو یاد رکھو اللہ ایسے شخص کو کبھی سیدھی راہ نہیں دکھاتا۔ اور وہ سچا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جھوٹے تم ہو اور جھوٹا ہونے کے باوجود اس حد تک آگے بڑھے جا رہے ہو کہ اسے قتل کرنا چاہتے ہو۔ تو پھر تمہارا انجام بُرا ہو کر رہے گا۔ عقبہ بن ابی معیط کا آپ کا گھلا گھونٹنا: بالکل ایسا ہی واقعہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش آیا۔ ایک بد بخت مشرک عقبہ بن ابی معیط نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہلاک کرنے کی کوشش کی۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث میں آتا ہے۔ عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے پوچھا: ’’ مجھے بتاؤ کہ مشرکین مکہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ تکلیف دی وہ کیا تھی؟‘‘ وہ کہنے لگے کہ’’ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے صحن میں نماز پڑھ رہے تھے۔ عقبہ بن ابی معیط آگے بڑھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مونڈھے کو پکڑا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن میں کپڑا ڈال کر مروڑا اور اتنی زور سے گلا گھونٹا (جیسے مار ہی ڈالے گا) اتنے میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آ گئے انھوں نے عقبہ کا مونڈھا تھاما اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کو پرے دھکیل دیا اور فرمایا: ’’ کیا تم اس شخص کو صرف اس لیے مار ڈالنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے۔ حالانکہ وہ تمھارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے واضح نشانیاں بھی لے کر آیا ہے۔ (ابوداود: ۴۳۴۴۔ ترمذی: ۲۱۷۴)