وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُّبِينٍ
اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی آیتوں اور کھلی دلیلوں کے ساتھ بھیجا۔ (١)
آیات سے مراد: وہ نو نشانیاں بھی ہو سکتیں ہیں۔ جن کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ یا عصا اور یدبیضا والے دو بڑے واضح معجزات بھی مراد ہو سکتے ہیں۔ سلطان مبین سے مراد قوی دلیل اور واضح حجت ہے۔ جس کا کوئی جواب ان کی طرف سے ممکن نہیں تھا۔ بجز ڈھٹائی اور بے شرمی کے اللہ تعالیٰ اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے سابقہ رسولوں کے قصے بیان فرماتا ہے کہ جس طرح انجام کار فتح و ظفر ان کے ساتھ رہی اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کفار سے کوئی اندیشہ نہ کیجیے۔ میری مدد آپ کے ساتھ ہو گی۔ جیسے کہ موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ ہے۔ ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو دلائل کے ساتھ بھیجا، قبطیوں کے بادشاہ فرعون کی طرف جو مصر کا سلطان تھا۔ اور ہامان کی طرف جو اس کا وزیر اعظم تھا۔ اور قارون کی طرف جو اس کے زمانے میں سب سے زیادہ دولت مند تھا اور تاجروں کا بادشاہ سمجھا جاتا تھا۔ ان سب نے پہلے لوگوں کی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تکذیب کی اور انہیں جادوگر اور کذاب کہا۔ جیسا کہ فرمایا: ﴿كَذٰلِكَ مَا اَتَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ ﴾ (الذاریات: ۵۲) ’’ اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں، ان کے پاس جو بھی نبی آیا، انہوں نے کہہ دیا کہ یہ تو جادوگر ہے۔ یا دیوانہ ہے۔ کیا یہ اس بات کی ایک دوسرے کو وصیت کرتے گئے ہیں؟ نہیں بلکہ یہ سب کے سب سرکش ہیں۔‘‘