سورة غافر - آیت 8

رَبَّنَا وَأَدْخِلْهُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدتَّهُمْ وَمَن صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

اے ہمارے رب! تو انہیں ہمیشگی والی جنتوں میں لے جا جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور ان کے باپ دادوں اور بیویوں اور اولاد میں سے (بھی) ان (سب) کو جو نیک عمل ہیں (١) یقیناً تو غالب و باحکمت ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

جہنم کے عذاب سے بچ جانا بھی بڑی کامیابی ہے: اگرچہ دوزخ کے عذاب سے بچ جانا بھی بہت بڑی کامیابی ہے۔ اور یہ خالصتاً اللہ کی مہربانی اور اس کے فضل سے ہو گا تاہم اگر اللہ تعالیٰ دوزخ سے بچا کر اپنی جنت میں بھی داخل کر دے تو یہ اللہ تعالیٰ کا دوسرا بڑا انعام ہو گا واضح رہے کہ دوزخ سے بچ جانے کا یہ لازمی نتیجہ نہیں کہ اسے جنت میں داخلہ بھی مل جائے۔ اصحاب اعراف دوزخ کے عذاب سے تو بچا لیے جائیں گے۔ لیکن وہ جنت اور دوزخ کے درمیانی مقام اعراف میں ہوں گے اور وہ اس بات کے منتظر بیٹھے ہوں گے کہ کب ان پر اللہ کی مہربانی ہوتی ہے۔ اور انھیں جنت میں داخلہ کی اجازت ملتی ہے۔ کم درجہ والی اولاد کو بھی اللہ والدین سے ملا دے گا: یعنی ان سب کو جنت میں جمع فرما دے گا تاکہ ایک دوسرے کو دیکھ کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں جیسا کہ سورہ طور (۲۱) میں فرمایا: ’’ وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان کے ساتھ انہی کی پیروی کی ملا دیا ہم نے ان کو ان کی اولاد کے ساتھ۔ اور ہم نے ان کے عملوں میں سے کچھ کم نہیں کیا۔‘‘ یعنی سب کو جنت میں اسی طرح یکساں مرتبہ دے دیا کہ ادنیٰ کو بھی اعلیٰ مقام عطا کر دیا۔ یہ نہیں کہا کہ اعلیٰ مقام میں کمی کر کے انھیں ادنیٰ مقام پر لے آئے، بلکہ ادنیٰ کو اٹھا کر اعلیٰ کر دیا اور اس کے عمل کی کمی کو اپنے فضل و کرم سے پورا کر دیا۔