وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوهَا وَفُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلَامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ
اور جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے تھے ان کے گروہ کے گروہ جنت کی طرف روانہ کئے جائیں گے یہاں تک کہ جب اس کے پاس آجائیں گے اور دروازے کھول دیئے جائیں گے اور وہاں کے نگہبان ان سے کہیں گے تم پر سلام ہو، تم خوش حال رہو تم اس میں ہمیشہ کیلیے چلے جاؤ۔ (١)
متقیوں کی آخری منزل: اہل ایمان و تقویٰ بھی گروہوں کی شکل میں جنت کی طرف لے جائے جائیں گے پہلے مقربین، پھر ابرار، اس طرح درجہ بہ درجہ، ہر گروہ ہم مرتبہ لوگوں پر مشتمل ہو گا مثلاً انبیاء علیہم السلام، انبیاء کے ساتھ، صدیقین، شہدا اپنے ہم جنسوں کے ساتھ علما اپنے اقران کے ساتھ، یعنی ہر صنف اپنی ہی صنف یا اس کی مثل کے ساتھ ہو گی۔ (ابن کثیر) ایک حدیث میں آتا ہے کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں۔ ان میں سے ایک ریان ہے۔ جس سے صرف روزہ دار داخل ہوں گے۔ (صحیح بخاری: ۳۲۵۷، مسلم: ۸۰۸) اسی طرح دوسرے دروازوں کے بھی نام ہوں گے۔ جیسے باب الصلوٰۃ، باب الصدقۃ، باب الجہاد وغیرہ (بخاری: ۱۸۹۷، مسلم: ۱۰۲۷) ہر دروازے کی چوڑائی چالیس سال کی مسافت کے برابر ہو گی اس کے باجود یہ بھرے ہوئے ہوں گے۔ (مسلم: ۲۹۶۷) سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھٹکھٹانے والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں گے۔ (مسلم: ۱۹۶) جنت میں سب سے پہلے جانے والے گروہ کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح، اور دوسرے گروہ کے چہرے آسمان پر چمکنے والے ستاروں میں روشن ترین ستارے کی طرح چمکتے ہوں گے۔ جنت جہنم میں وہ بول، براز، تھوک بلغم سے پاک ہوں گے۔ ان کی کنگھیاں سونے کی اور پسینہ کستوری کا ہو گا۔ ان کی انگیٹھیوں میں خوشبو دار لکڑی ہو گی۔ ان کی بیویاں حورعین ہوں گی۔ ان کا قد آدم علیہ السلام کی طرح ساٹھ ہاتھ ہو گا۔ (بخاری: ۳۲۴۶، مسلم: ۲۸۳۴) ہر مومن کو دو بیویاں ملیں گی۔ ان کے حسن و جمال کا یہ حال ہو گا کہ ان کی پنڈلی کا گودا گوشت کے پیچھے سے نظر آئے گا۔ (بخاری: ۳۲۴۰)