وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَن شَاءَ اللَّهُ ۖ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَىٰ فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنظُرُونَ
اور صور پھونک دیا جائے گا پس آسمانوں اور زمین والے سب بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے (١) مگر جسے اللہ چاہے (٢) پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا پس وہ ایک دم کھڑے ہو کر دیکھنے لگ جائیں گے (٣)
نفخۂ صور کی بیہوشی سے کون مشتنیٰ ہو گا: یعنی کچھ ایسی مخلوق بھی ہو گی جو بےہوش نہیں ہو گی بعض نے اس استثنا سے چار بزرگ فرشتے یعنی جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور ملک الموت مراد لیے ہیں بعض نے ان میں حاملین عرش کو بھی شامل کیا ہے اور بعض نے انبیا، صلحا اور شہدا کو بھی۔ حدیث میں آتا ہے: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دونوں نفخہ صور میں چالیس کا فاصلہ ہو گا لوگوں نے پوچھا ابوہریر! کیا چالیس دن کا؟‘‘ انھوں نے کہا’’ یہ میں نہیں کہہ سکتا‘‘ پھر لوگوں نےپوچھا؟ ‘‘ کیا چالیس برس کا‘‘ کہنے لگے: یہ میں نہیں کہہ سکتا‘‘ پھر لوگوں نے کہا ’’ کیا چالیس ماہ کا؟‘‘ کہنے لگے! یہ میں نہیں کہہ سکتا‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان کا سارا جسم (مٹی میں) گھل جاتا ہے۔ ماسوائے ریڑھ کی ہڈی کے (جو رائی کے دانہ کے برابر ہوتی ہے) اسی سے تمام خلقت کو ترکیب دے کر اٹھا کھڑا کیا جائے گا۔ (مسلم: ۲۹۵۵) یہاں صرف دو دفعہ صور پھونکنے کا ذکر ہے۔ ان کے علاوہ سورہ نمل میں ان دونوں سے پہلے ایک اور نفخہ صور کا ذکر بھی آیاہے، جسے سن کر زمین و آسمان کی ساری مخلوق دہشت زدہ ہو جائے گی۔ اسی بنا پر احادیث میں تین دفعہ صور واقع ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک نفخۃ الفرء، یعنی گھبرا دینے والا صور دوسرا نفخۃ الصعق، یعنی مار گرانے والا صور، تیسرا نفخۃ القیام لرب العالمین، یعنی وہ صور جیسے پھونکتے ہی تمام انسان جی اٹھیں گے۔ اور اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لیے اپنی مرقدوں سے نکل آئیں گے۔ (تفہیم القرآن)