سورة الزمر - آیت 49

فَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا ثُمَّ إِذَا خَوَّلْنَاهُ نِعْمَةً مِّنَّا قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ ۚ بَلْ هِيَ فِتْنَةٌ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

انسان کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے (١) تو ہمیں پکارنے لگتا ہے پھر جب ہم اسے اپنی طرف سے کوئی نعمت عطا فرما دیں تو کہنے لگتا ہے (٢) کہ اسے تو میں محض اپنے علم کی وجہ سے دیا گیا ہوں (٣) بلکہ یہ آزمائش ہے لیکن ان میں سے اکثر لوگ بے علم ہیں۔ (٤)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

انسان کا ناشکرا پن: اللہ تعالیٰ انسان کا باعتبار جنس ذکر فرماتا ہے یعنی انسانوں کی اکثریت کا یہ حال ہے کہ جب اس کو بیماری، فقر و فاقہ یا کوئی اور تکلیف پہنچتی ہے تو اس سے نجات پانے کے لیے اللہ سے دعائیں کرتا ہے۔ اور اس کے سامنے گڑ گڑاتا ہے۔ اور نعمت ملتے ہی سرکشی اور طغیان کا راستہ اختیار کر لیتا ہے اور کہتا ہے کہ اس میں اللہ کا کیا احسان ہے؟ یہ تو میری اپنی دانائی کا نتیجہ ہے یا جو علم و ہنر میرے پاس ہے۔ اس کی بدولت یہ نعمتیں حاصل ہوئی ہیں یا مجھے معلوم تھا کہ دنیا میں یہ چیزیں مجھے ملیں گی کیوں کہ اللہ کے ہاں میرا بہت مقام ہے۔ یہ آزمائش ہے: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بات یوں نہیں بلکہ دراصل یہ ہماری طرف سے آزمائش ہے۔ گو ہمیں ازل سے علم حاصل ہے تاہم ہم اسے ظہور میں لانا چاہتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اس نعمت کا یہ شکر ادا کرتا ہے یا ناشکری، لیکن یہ لوگ بے علم ہیں۔ دعویٰ کرتے ہیں منہ سے بات نکال دیتے ہیں لیکن اصلیت سے بے خبر ہیں۔