إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ
یقیناً خود آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں۔
کفار مکہ بسا اوقات یہ آرزو کرتے تھے کہ اگر یہ نبی (نعوذ باللہ) مر جائے تو سارے جھگڑے ختم ہو جائیں گے اس آیت میں ان کی اسی بری آرزو کا سنجیدہ جواب دیا گیا ہے۔ اور اس نبی کو ہی مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ اگر آپ کو موت آتی ہے تو کیا یہ موت سے بچ سکیں گے۔ سب اس دنیا سے جانے والے ہیں اور آخرت میں اپنے رب کے پاس جمع ہونے والے ہیں۔ وہاں اللہ تعالیٰ مشرکوں اور موحدوں میں صاف فیصلہ کر دے گا اور حق ظاہر ہو جائے گا۔ اس سے اچھے فیصلے والا اور اس سے زیادہ علم والا کون ہے؟ ایمان، اخلاص، توحید و سنت والے نجات پائیں گے۔ شرک و کفر، انکار و تکذیب والے سخت سزائیں پائیں گے۔ اسی طرح جن دو شخصوں میں جو جھگڑا اور اختلاف دنیا میں تھا، رو ز قیامت وہ اللہ عادل کے سامنے پیش ہو کر فیصل ہو گا۔ اس آیت کے نازل ہونے پر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ قیامت کے دن پھر سے جھگڑے ہوں گے؟ آپ نے فرمایا ہاں یقیناً، تو حضرت عبداللہ نے کہا، پھر تو سخت مشکل ہے۔ (مستدرک حاکم: ۲/ ۴۳۵)