سورة الزمر - آیت 7

إِن تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنكُمْ ۖ وَلَا يَرْضَىٰ لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ ۖ وَإِن تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ ۗ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۗ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُم مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اگر تم ناشکری کرو تو (یاد رکھو) کہ اللہ تعالیٰ تم (سب سے) بے نیاز ہے (١) اور وہ اپنے بندوں کی ناشکری سے خوش نہیں اور اگر تم شکر کرو تو وہ اسے تمہارے لئے پسند کرے گا۔ اور کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھاتا پھر تم سب کا لوٹنا تمہارے رب ہی کی طرف ہے۔ تمہیں وہ بتلا دے گا جو تم کرتے تھے۔ یقیناً وہ دلوں تک کی باتوں کا واقف ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یعنی ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے۔ اور اللہ سب سے بے نیاز ہے۔ ایک حدیث میں وارد ہے کہ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے: اے میرے بندو! تمہارے سب اول و آخر انسان و جن مل کر بد ترین شخص کا سا دل بنا لو۔ تو میری بادشاہت میں کوئی کمی نہیں آئے گی (مسلم: ۲۵۷۷) ہاں اللہ تمہاری ناشکری سے خوش نہیں نہ وہ تمہیں اس کا حکم دیتا ہے۔ا گر تم اس کی شکر گزاری کرو گے تو وہ اس پر تم سے رضا مند ہو جائے گا اور تمہیں اپنی مزید نعمتیں عطا فرمائے گا۔ اگرچہ انسان اللہ کی مشیئت ہی سے کفر کرتا ہے کیوں کہ اس کی مشیئت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا نہ ہو سکتا ہے۔ تاہم کفر کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا۔ اس کی رضا حاصل کرنے کا راستہ تو شکر ہی کا راستہ ہے نہ کہ کفر ہے۔ یعنی اس کی مشیئت اور چیز ہے اور رضا اور چیز ہے۔ معیشت الٰہی اور رضائے الٰہی: اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں کئی جگہ بیان فرمایا ہے، اس کی رضا تو یہ ہے کہ تمام انسان اس کی نازل کردہ شریعت کو اپنا کر جہنم سے بچ جائیں اسی لیے اس نے کتابیں اتاریں، انبیا علیہم السلام کا سلسلہ قائم کیا۔ تاآنکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر رسالت کا خاتمہ فرما دیا۔ تاہم علما اور خلفا کے ذریعے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا سلسلہ جاری رکھا اور اس کی سخت تاکید و اہمیت بیان فرمائی تاکہ لوگ اللہ کے پسندیدہ راستے کو اختیار کریں۔ لیکن چوں کہ اس نے ہدایت اور گمراہی دونوں راستوں کی نشاندہی کر کے انسانوں کو کوئی ایک راستہ اختیار کرنے پر مجبور نہیں کیا۔ بلکہ بطور امتحان اسے اختیار اور ارادہ کی آزادی سے نوازا ہے۔ اس لیے کوئی اسے اختیار کر کے مومن بن جاتا ہے اور کوئی اس اختیار و آزادی کا غلط استعمال کر کے کافر بن جاتا ہے۔ یہ گویا اس کی حکمت و مشیئت ہے جو اس کی رضا سے مختلف چیز ہے۔ (احسن البیان) کوئی کسی کا بار اٹھانے والا نہیں: یعنی ہر شخص وہی پائے گا جو اس نے کیا ہو۔ ایک کے بدلے دوسرا پکڑا نہ جائے گا اور اللہ پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔