سورة آل عمران - آیت 110

كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۗ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم ۚ مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو (١) اگر اہل کتاب بھی ایمان لاتے تو ان کے لئے بہتر تھا ان میں ایمان لانے والے بھی ہیں (٢) لیکن اکثر تو فاسق ہیں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

بہترین امت جو نکالی گئی ہے لوگوں کے لیے، اس امت کے فرائض ہیں نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا، تم اللہ پر ایما ن لاتے ہو۔ اس آیت میں امت کے وجود کا مقصد بیان کیا گیا ہے اور اسے قیادت کا فریضہ سونپا ہے۔ اُمت کسے کہتے ہیں: امت ایسے گروہ کو کہتے ہیں جو ایک نظریے پر قائم ہو اور اسی کے مطابق کام کرے آپس میں جڑی ہو۔ ان میں باہمی اخوت ہو۔ اور ان کا دکھ درد ایک ہو۔ افراد کے اس گروہ کو امت بنادیتی ہے۔یقین کامل، ہو۔ عمل اور مقصد ایک ہو، یہ امت خیر اُمت ہے نیکی کو پھیلائے گی برائی کو روکے گی۔ امت ِمسلمہ اپنے کاموں اور اعمال کی بنیاد پر بہترین امت ہے اجتماعی زندگی اور انفرادی زندگی میں بھی امت مسلمہ نے پوری انسانیت کو ہدایت اور راہنمائی فراہم کرنی ہے۔ اُخْرِجَتِْ لِلنَّاسِ نکالا گیا ہے سب لوگوں کے لیے جیسے پردہ غیب سے نکال کر سب لوگوں کے سامنے کھڑا کردیا گیا ہے۔ آہستہ آہستہ متحرک کیا جارہا ہے خیر کی قیادت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اس نے کسی اور سے ہدایت نہیں لینی بلکہ اب ساری انسانیت نے اس آیت سے ہدایت لینی ہے۔ جہالت کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے تسخیر کائنات کے ذریعے اپنے ایمان با اللہ کو مضبوط کرکے، قوت کو بھلائی کے کاموں میں استعمال کرنا ہے۔ ایک وقت تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو سب جہان والوں پر فضیلت بخشی تھی، مگر ان لوگوں نے نہ صرف فریضہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کردیا، بلکہ خود بھی بڑے بڑے جرائم میں مبتلا ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا کی امامت و قیادت ان سے چھین کر اُمت مسلمہ کے حوالے کردی۔ اور یہ فضیلت اللہ کی دین ہے جسے مناسب سمجھتا ہے اُسے دیتا ہے۔ چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’گزشتہ لوگوں (یہود و نصاریٰ) کے مقابلہ میں تمہارا رہنا ایسا ہے جیسے عصر سے سورج غروب ہونے تک کا وقت، اہل تورات کو تورات دی گئی انھوں نے صبح سے دوپہر تک مزدوری کی پھر تھک گئے تو انھیں ایک ایک قیراط ملا۔ اہل انجیل کو انجیل دی گئی ۔ انھوں نے عصر کی نماز تک مزدوری کی پھر تھک گئے انھیں بھی ایک ایک قیراط ملا۔ پھر ہم مسلمانوں کو قرآن دیا گیا۔ ہم نے عصر سے سورج غروب ہونے تک مزدوری کی (اور کام پورا کردیا) تو ہمیں دو، دو قیراط دیے گئے۔ اب اہل کتاب کہنے لگے پروردگار تونے انھیں تو دو دو قیراط دیے اور ہمیں ایک ایک حالانکہ ہم نے ان سے زیادہ کام کیا ہے۔ اللہ عزوجل نے انھیں جواب دیا میں نے تمہاری مزدوری (جوتم سے طے کی تھی) کچھ کم نہیں کی؟ انھوں نے کہا نہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’توپھر یہ میرا فضل ہے میں جسے جو کچھ چاہوں دے دوں۔‘‘ (بخاری: ۵۵۷) اس آیت میں اہل کتاب کو بتایا جارہا ہے کہ اگر وہ ایمان لے آتے تو اس ذلت و خواری سے بچ سکتے تھے اگر وہ خیرالاُمم ہو جاتے تو آخرت میں انہیں دوہرا اجر ملتا اور دنیا میں بھی عزت بڑھتی۔ مگر حق واضح ہونے کے بعد بھی انکی اکثریت نافرمانی پراڑی رہی اور اپنا ہی نقصان کیا۔