وَاذْكُرْ عَبْدَنَا أَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الشَّيْطَانُ بِنُصْبٍ وَعَذَابٍ
اور ہمارے بندے ایوب (علیہ السلام) کا (بھی) ذکر کر، جبکہ اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے شیطان نے رنج اور دکھ پہنچایا ہے (١)
حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری اور اس میں ان کا صبر مشہور ہے۔ جس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اہل و مال کی تباہی اور بیماری کے ذریعے سے ان کی آزمائش کی جس میں وہ کئی سال مبتلا رہے۔ حتی کہ صرف ایک بیوی ان کے ساتھ رہ گئی جو صبح و شام ان کی خدمت بھی کرتی اور کہیں کام کر کے ان کابقدر کفالت رزق کا انتظام بھی کرتی تھی اور شیطان کا ذکر اس لیے کیا کیا کہ ممکن ہے شیطان کے وسوسے ہی کسی ایسے عمل کا سبب بنے ہوں جن کی وجہ سے یہ آزمائش آئی ہو۔ حالانکہ سب کچھ کرنے والا صرف اللہ ہی ہے۔ ہر مسلمان کے عقیدہ میں یہ بات شامل ہے اور اس کے ایمان بالغیب کا ایک جزو ہے کہ رنج و راحت، برائی ہو یا بھلائی سب کچھ اللہ کی مشیئت کے تحت ہوتا ہے۔ لیکن اس مشیئت کا انحصار بھی بعض دفعہ انسان کے اپنے قصور یا شیطانی وساوس سے کسی نہ کسی درجہ میں ضرور ہوتا ہے اور قرآن کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جن امور میں کوئی پہلو شر، ایذا یا کسی صحیح مقصد کے فوت ہو جانے کا ہو ان کو اللہ کے مقرب بندے ادب کے نقطہ نظر سے اور تواضع کی خاطر کبھی اللہ کی طرف منسوب نہیں کرتے۔ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے مرض کو اپنی طرف منسوب کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ یوشع بن نون نے مچھلی کے سمندر میں چلے جانے کی بات کو شیطان کی طرف منسوب کیا اسی طرح ایوب علیہ السلام نے بھی اپنی بیماری اور تکلیف کو شیطان کی طرف منسوب کیا۔