هَٰذَا عَطَاؤُنَا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسَابٍ
یہ ہے ہمارا عطیہ اب تو احسان کر یا روک رکھ، کچھ حساب نہیں (١)۔
جنوں پر سلیمان علیہ السلام کی حکمرانی: یعنی جنوں کے معاملہ میں آپ کو مکمل اختیارات حاصل تھے کسی سے کام لیں یا نہ لیں، کسی کو معاوضہ دیں نہ دیں۔ یہ معاوضہ تھوڑا دیں یا زیادہ دیں۔ یہ سب کچھ آپ کی صوابدید پر منحصر ہے۔ اور اگر اس آیت کو عام سمجھا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ ہم نے آپ کو بے پناہ مال و دولت عطا کی تھی اور کہہ دیا تھا کہ اسے جیسے چاہو خرچ کرو۔ آپ سے اس کا کچھ مواخذہ نہ ہو گا۔ اب ایک طرف اللہ تعالیٰ کے انعامات کا یہ حال ہے کہ بے حساب مال و دولت دے کر فرمایا جیسے چاہو خرچ کرو۔ آپ سے کوئی حساب نہیں لیا جائے گا دوسری طرف سلیمان علیہ السلام کا یہ حال تھا کہ اپنی ذاتی ضروریات کے لیے بیت المال سے ایک پیسہ بھی نہیں لیتے تھے بلکہ اپنے والد بزرگوار کی طرح اپنی کمائی سے کھاتے تھے۔ داؤد علیہ السلام تو زرہیں بنایا کرتے تھے، اور آپ تابنے کی مصنوعات تیار کرتے تھے۔