فَأَقْبَلُوا إِلَيْهِ يَزِفُّونَ
وہ (بت پرست) دوڑے بھاگے آپ کی طرف متوجہ ہوئے (١)
سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے قوم کا سوال و جواب: میلہ سے واپسی پر جب اپنے معبودوں کا یہ حشر دیکھا تو ان کا پارہ بہت چڑھ گیا۔ وہ پہلے ہی جانتے تھے کہ ہمارے بتوں کی مخالفت صرف ابراہیم علیہ السلام ہی کرتا رہتا ہے۔ اور وہ پیچھے بھی رہ گیا ہے۔ یہ اسی کا کارنامہ ہو سکتا ہے۔ اب سارے مل کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس دوڑتے، بھاگتے، دانت پیستے، تلملاتے اور کوستے ہوئے گئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تبلیغ کا اور انھیں قائل کرنے اور سمجھانے کا اچھا موقعہ ملا۔ فرمانے لگے، کیوں ان چیزوں کی پرستش کرتے ہو جنھیں خود تم بناتے ہو۔ گھڑتے ہو، تراشتے ہو؟ حالانکہ تمہارا اور ان پتھروں کا خالق بھی اللہ ہے۔ اور تمہارا عمل جو بھی تم کرتے ہو ان کا خالق بھی اللہ ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ بندوں کے افعال کا خالق بھی اللہ ہی ہے۔ چنانچہ امام بخاری کی ’’کتاب افعال العباد‘‘ (۵۶۴۷) میں ایک مرفوع حدیث ہے: کہ اللہ تعالیٰ ہر صانع اور اس کی صنعت کو پیدا کرتا ہے ۔ پھر بعد میں اسی آیت کی تلاوت کی۔