وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنُطْعِمُ مَن لَّوْ يَشَاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
اور ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے میں سے کچھ خرچ کرو، (١) تو یہ کفار ایمان والوں کو جواب دیتے ہیں کہ ہم انہیں کیوں کھلائیں؟ جنہیں اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو خود کھلا پلا دیتا (٢) تم تو ہو ہی کھلی گمراہی میں۔
اللہ کی راہ میں خرچ کرو: یعنی غربا، مساکین اور ضرورت مندوں کو دو تو اس کے جواب میں یہ کہتے ہیں کہ اللہ چاہتا تو ان کو غریب ہی نہ کرتا، ہم ان کو دے کر اللہ کے مشیئت کے خلاف کیوں کر یں۔ تم جو ہمیں خیرات کی نصیحت کر رہے ہو، اس میں بالکل غلطی پر ہو۔ یہ بات تو ان کی صحیح تھی کہ غربت و ناداری اللہ کی مشیت ہی سے تھی لیکن اس کو اللہ کے حکم سے اعراض کا جواز بنا لینا غلط تھا۔ آخر ان کی امداد کا حکم دینے والا بھی تو اللہ ہی تھا۔ اس لیے اس کی رضا تو اسی میں ہے کہ غربا اور مساکین کی امداد کی جائے اس لیے مشیئت اور چیز ہے اور رضا اور چیز۔ مشیئت کا تعلق امور تکوینی سے ہے جس کے تحت جو کچھ بھی ہوتا ہے۔ اس کی حکمت و مصلحت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور رضا کا تعلق امور تشریعی سے ہے جن کو بجا لانے کا ہم کو حکم دیا گیا ہے تاکہ ہمیں اللہ کی رضا حاصل ہو۔ قیامت کب آئے گی: قیامت جب آئے گی دفعتاً آئے گی۔ یعنی لوگ بازاروں میں خرید و فروخت میں، اور حسب عادت بحث و تکرار میں مصروف ہوں گے کہ اچانک صور پھونک دیا جائے گا اور قیامت برپا ہو جائے گی اور جو شخص جس حال میں ہو گا وہیں دھر لیا جائے گا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت اس حال میں آئے گی کہ دو آدمی اپنا کپڑا بچھائے بیٹھے ہوں گے وہ اس کی سودا بازی اور کپڑا لپیٹنے سے ابھی فارغ نہ ہوں گے کہ قیامت آجائے گی۔ اور آدمی اپنی اونٹنی کا دودھ لے کر چلے گا، ابھی اس کو پیے گا نہیں کہ قیامت آ جائے گی۔ اور کوئی آدمی اپنا حوض لیپ پوت رہا ہو گا۔ پھر ابھی اس کا پانی پیا نہیں جائے گا کہ قیامت آ جائے گی۔ اور ایک آدمی کھانے کا نوالہ منہ کی طرف اُٹھا رہا ہو گا کہ ابھی کھایا نہ ہو گا کہ قیامت آ جائے گی۔ (مسلم: ۲۹۵۴)