يَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ ۚ مَا يَأْتِيهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ
(ایسے) بندوں پر افسوس! (١) کبھی بھی کوئی رسول ان کے پاس نہیں آیا جس کی ہنسی انہوں نے نہ اڑائی ہو۔
منکرین کی ندامت: حسرت و ندامت کا یہ اظہار یہ لوگ خود اپنے آپ پر قیامت والے دن عذاب دیکھنے کے بعد کریں گے کہ کاش انھوں نے اللہ کے بارے میں کوتاہی نہ کی ہوتی۔ یا اللہ تعالیٰ ان پر افسوس کر رہا ہے کہ ان کے پاس جب بھی کبھی کوئی رسول آیا انھوں نے اس کے ساتھ استہزا ہی کیا جیسا کہ تفسیر طبری (۲۰/۵۱۲) میں ہے۔ کہ قیامت کے دن عذابوں کو دیکھ کر یہ منکرین توحید و رسالت ہاتھ ملیں گے کہ انھوں نے کیوں رسول کو جھٹلایا اور کیوں اللہ کے فرمان کے خلاف کیا؟ یعنی جن لوگوں نے پیغمبروں کی نہ مانی وہ غارت و برباد کر دئیے گئے ایک بھی تو ان میں سے بچ نہ سکا نہ اس دار آخرت سے کوئی واپس پلٹا۔ تمام گزرے ہوئے، موجودہ اور آئندہ قیامت تک آنے والے لوگ قیامت کے دن اللہ کے سامنے حساب و کتاب کے لیے حاضر کیے جائیں گے اور وہاں ہر ایک برائی بھلائی کا بدلہ پائیں گے۔